اسلام آباد —
وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی سر زمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے جمہوری عمل کی حمایت کرتا ہے۔
وزیراعظم نے یہ بات بدھ کو برطانیہ کے قومی سلامتی کے مشیر کم ڈروچ اور اُن کے ہمراہ آنے والے وفد سے ملاقات میں کہی۔
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کار بند ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کا افغانستان سے متعلق یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں بظاہر تناؤ آیا ہے۔
افغانستان میں صدارتی انتخابات سے قبل دارالحکومت کابل کے حساس علاقے میں واقع ایک ہوٹل اور خود مختار الیکشن کمیشن کے صدر دفتر پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد افغان عہدیداروں نے پاکستان کا نام لیے بغیر یہ کہا تھا کہ ان حملوں میں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث ہیں۔
پاکستان کی طرف سے کابل میں ہونے والے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اعلٰی افغان عہدیداروں کے بیانات کو مایوس کن قرار دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ الزام تراشی کا یہ سلسلہ نا صرف دو طرفہ تعلقات کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اعتماد سازی کے لیے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بہتر دو طرفہ تعلقات اور دہشت گردی کے مشترکہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے الزام تراشی کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔
’’وزیراعظم نے تو افغانستان کے دورے کے دوران یہ بات کہی تھی اور اس پر عمل بھی ہونا شروع ہو گیا تھا کہ پاکستان کسی بھی ملک کے اندر مکمل طور پر عدم مداخلت کی پالیسی کا حامی ہے۔‘‘
پاکستانی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی طرف سے الزام تراشی کا یہ سلسلہ بظاہر وہاں انتخابی مہم کا ایک حصہ ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی حکومت میں شامل دیگر اعلیٰ عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے مفاہمتی عمل کا ناصرف حامی ہے بلکہ اس کی کامیابی کے لیے بھی ہر ممکن تعاون کیا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے جمہوری عمل کی حمایت کرتا ہے۔
وزیراعظم نے یہ بات بدھ کو برطانیہ کے قومی سلامتی کے مشیر کم ڈروچ اور اُن کے ہمراہ آنے والے وفد سے ملاقات میں کہی۔
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کار بند ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کا افغانستان سے متعلق یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں بظاہر تناؤ آیا ہے۔
افغانستان میں صدارتی انتخابات سے قبل دارالحکومت کابل کے حساس علاقے میں واقع ایک ہوٹل اور خود مختار الیکشن کمیشن کے صدر دفتر پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد افغان عہدیداروں نے پاکستان کا نام لیے بغیر یہ کہا تھا کہ ان حملوں میں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث ہیں۔
پاکستان کی طرف سے کابل میں ہونے والے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اعلٰی افغان عہدیداروں کے بیانات کو مایوس کن قرار دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ الزام تراشی کا یہ سلسلہ نا صرف دو طرفہ تعلقات کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اعتماد سازی کے لیے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بہتر دو طرفہ تعلقات اور دہشت گردی کے مشترکہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے الزام تراشی کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔
’’وزیراعظم نے تو افغانستان کے دورے کے دوران یہ بات کہی تھی اور اس پر عمل بھی ہونا شروع ہو گیا تھا کہ پاکستان کسی بھی ملک کے اندر مکمل طور پر عدم مداخلت کی پالیسی کا حامی ہے۔‘‘
پاکستانی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی طرف سے الزام تراشی کا یہ سلسلہ بظاہر وہاں انتخابی مہم کا ایک حصہ ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی حکومت میں شامل دیگر اعلیٰ عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے مفاہمتی عمل کا ناصرف حامی ہے بلکہ اس کی کامیابی کے لیے بھی ہر ممکن تعاون کیا جا رہا ہے۔