افغانستان میں امریکہ کے موجودہ سفیر ریان کروکر ان گنے چنے امریکی سفارتکاروں میں سے ہیں جو گیارہ ستمبر 2001ءکے بعد سفارتکاری کے میدان میں ہر طرح سے سرگرم رہے ہیں ۔ سن 2001ء میں طالبان کے دور حکومت کے خاتمے پر انہوں نے کابل میں ایک بار پھر امریکی سفارتخانہ کھولا۔ پھر وہ پاکستان اور عراق میں امریکہ کے سفیر کے طور پر تعینات رہے ۔ گیارہ ستمبر 2001ء کو وہ نیویارک میں تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان واقعات نے تب سے اب تک میری زندگی اور میرے پیشے کی نئی راہ متعین کی ہے۔میں نے تب سے پانچ سال ان ملکوں میں گزارے ہیں اور مزید کچھ سال یہاں گزاروں گا۔ کیونکہ گیارہ ستمبر جیسے واقعات پھر کوئی نہیں دیکھنا چاہتا۔
شروع میں امریکہ افغانستان کی تعمیرنو اور بحالی میں زیادہ دلچسپی لینے سے ہچکچاتا رہا اور اس کی توجہ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے اور القاعدہ کے خاتمے پر مرکوز رہی۔
مگر کچھ ہی برسوں میں یہ واضح ہوگیا کہ اداروں کی تعمیر نو کے بغیر ملک میں وہ خلا برقرار رہے گا جس کی وجہ سے طالبان اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے آ کر ملک کو غیر مستحکم کرتے ہیں۔
افغانستان کے سابق وزیر خارجہ اور گزشتہ انتخابات میں صدر حامد کرزئی کے مخالف صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ کہتے ہیں کہ عالمی برادری اور خود افغان عوام نے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر توجہ نہ دینے ، ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے اور حکومت کے اندر بدعنوانی روکنے کا موقع کھو دیا ہے۔
افغانستان میں داخل ہونے کے بعد امریکی پالیسی یہ تھی کہ طالبان کے ٕمخالف قبائلی سرداروں اور کمانڈروں کو رقم دے کر ساتھ ملایا جائے۔ان کی زیادتیوں پر سے توجہ ہٹا لی گئی جس کی وجہ سے ناقدین کہتے کہ وہاں بدعنوانی کو فروغ ملا۔
ریان کروکر خود جانتے ہیں کہ جب ادارے تباہ ہوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں ایک فعال سول سوسائٹی قائم ہونے تک سب کو تحمل سےکام لینا ہوگا۔
مگر سن 2014ءتک نیٹو افواج کی واپسی کے منصوبے کے اعلان کے بعد کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان اب مغربی افواج کے جانے کا انتظار کریں گے ۔ڈاکٹر عبداللہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ ماضی کا وہ تجربہ بھی ہے جوروسی افواج کے نکلنے کے بعد ہوا، یعنی ابھی واضح نہیں کہ نیٹو کے جانے کے بعد کیا ہوگا۔
روسی افواج کے جانے کے بعد افغانستان میں جو خلا اور خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا ہوئی تھی، اس سے بچنے کے لئے ٕامریکہ اور نیٹو افواج اسی طرح مقامی سیکیورٹی فورسز کی تشکیل پر توجہ دے رہی ہیں جیسے عراق میں کیا گیا۔
ریان کروکر کہتے ہیں کہ دوسری مرتبہ امریکہ افغانستان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا اوراس پیغام کو عام کرنا ان کی ترجیح ہے ۔ ان کا کہناہے کہ کام پورا ہونے سے پہلے یا افغانستان بھر میں سیکیورٹی فورسز کے ذمہ داری سنبھالنے کے قابل ہونے سے پہلے وہاں سے نکلنے کا مطلب ہے کہ طالبان کی واپسی کا خطرہ موجود رہے گا۔ اس لئے دس سال گزرنے کے بعد بھی ہمیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ ہمیں پوری کوشش کرنی ہوگی کہ افغانستان اوراس کے پڑوس پاکستان میں حالات درست ہوں تاکہ دس سال پہلے جیسے واقعات دوبارہ نہ ہو سکیں ۔
امریکی سفیر کی طرح افغانستان میں کام کرنے والے دیگر امریکیوں کا کہنا بھی یہی ہے کہ دس سال پہلے کے واقعات آج بھی افغانستان میں ان کے کام کا محرک بنے ہوئے ہیں ۔