طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کے مشرقی حصے میں داعش کے وفاداروں کے خلاف لڑنے والے طالبان پر امریکی فضائی حملے کے نتیجے میں ان کے 16 جنگجو ہلاک ہو گئے ۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعے کے روز بتایا کہ طالبان جنگجو اس وقت امریکی ڈرونز کا نشانہ بنے جب وہ افغانستان کے مشرقی صوبوں ننگرہار اور کنڑ میں داعش کے ٹھکانوں کے خلاف حملے کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی ڈرونز نے ہماری پوزیشنز، گاڑیوں اور دفاعی لائن پر متعدد بار بم برسائے جس سے طالبان جنگجوؤں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
پنٹاگان نے ابھی تک اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یہ واقعہ روس کے ان مبینہ الزامات کے ایک روز بعد پیش آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بغیر شناخت کے ہیلی کاپٹر افغانستان کے شمالی صوبے میں داعش کے جنگجوؤں کو ہتھیار اور گولہ بارود پہنچا رہے ہیں۔ روس نے اس بارے میں مقامی حکام اور نیٹو کی قیادت کے غیر ملکی فوجی شراکت داروں سے وضاحت پیش کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
جمعرات کے روز روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا تھا کہ ایسے ہیلی کاپٹرز جن کی کوئی شناخت نہیں تھی، افغانستان کے شمالی صوبے سر پل میں دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے ایک دھڑے کی مدد کے لیے فوجی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
ترجمان ماریہ زاخاروا کا کہنا تھا کہ یہ کارروائیاں وسطی ایشیائی ریاستوں کی سرحدوں کے قریب ہو رہی ہیں اور افغانستان میں آئی ایس آئی ایس کے بہت سے عسکریت پسند ان ملکوں سے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماسکو افغان سیکیورٹی اداروں اور اس ملک میں تعینات امریکی قیادت کی بین الاقوامی فورسز کے جواب کا انتظار کر رہا ہے۔
طالبان اور روس ماضی میں بھی امریکی فوج پر اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کی مدد کا الزام لگا چکے ہیں جسے واشنگٹن نے کلی طور پر غیر حقیقی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
اس سے پہلے سن 2009 میں سابق صدر حامد کرزئی نے پہلی بار یہ کہا تھا کہ امریکہ جنگ کو طول دینے کے لیے خفیہ طور پر طالبان کی مدد کر رہا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا تھا جب کرزئی حکومت اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے اور امریکہ نے کہا تھا کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔
امریکی عہدے دار ماسکو پر یہ کہتے ہوئے بھی نکتہ چینی کر چکے ہیں کہ اس نے طالبان کے ساتھ یہ عذر پیش کرتے ہوئے رابطے رکھے ہوئے ہیں کہ وہ افغانستان میں دیگر دہشت گرد گروپس کے خلاف لڑ رہے ہیں اور یہ کہ ماسکو کی اس پالیسی سے جنگ زدہ ملک میں بین الاقوامی کامیابیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق روسی عہدے داروں نے کابل پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے مستقبل پر ماسکو میں ہونے والی کثیر ملکی مشاورتي کانفرنس میں شرکت کرے جس میں طالبان کا ایک وفد بھی شامل ہو گا۔
افغان حکومت نے اس وقت تک کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے جب تک طالبان 4 ستمبر کو ہونے والی کانفرنس کی سائیڈ لائنز میں ان کے وفد سے براہ راست دو طرفہ بات چیت پر رضامند نہیں ہو جاتا۔
واشنگٹن بھی یہ کہتے ہوئے کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر چکا ہے کہ کسی بھی مفاہمتی کوشش کی قیادت افغان حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔