افغانستان میں امدادی کارکن ان لوگوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں یا سیلاب سے پھسلنے والے مٹی کے تودوں اور عمارتوں کے ملبے میں دب گئے ہیں۔
افغان عہدے داروں نے ہفتے کے روز بتایا کہ سیلابی ریلوں کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 160 کے لگ بھگ ہے جب کہ بڑی تعداد میں مکان اور عمارتیں بہہ گئی ہیں۔
سیلاب نے ملک کے شمالی علاقوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ قدرتی آفات کی صورتِ حال میں امدادی کاموں سے متعلق وزارت نے بتایا ہے کہ سیلاب سے ملک کے 13 صوبے متاثر ہوئے ہیں جو زیادہ تر شمالی حصے میں ہیں۔
کابل کے شمال میں واقع صوبے پروان میں 116 افراد ہلاک اور 120 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں، جب کہ مزید 15 افراد لاپتا ہیں۔
پروان کے گورنر کی ترجمان وحیدہ شخار نے بتایا ہے کہ امدادی ٹیمیں اب بھی متاثرہ علاقے میں لاپتا ہونے والے افراد کو تلاش کر رہی ہیں۔
مقامی پولیس کے ایک ترجمان سلیم نوری نے میڈیا کو بتایا کہ پروان میں سیلابی ریلے بدھ کی صبح کو داخل ہوئے اور بڑی تعداد میں مکان اور عمارتیں اپنے ساتھ بہا کر لے گئے۔ متاثر ہونے والوں کی اکثریت کسانوں اور مزدروں کی ہے، جو بمشکل اپنی گزر اوقات کرتے ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ سیلابی ریلوں کی زد میں آ کر کئی لوگوں زخمی ہوئے ہیں جن کے لیے خون کے عطیات کی اشد ضرورت ہے۔
افغان وزارت دفاع نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کارروائیوں اور امدادی سرگرمیوں میں ہاتھ بٹا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان عسکریت پسندوں سے بھی نمٹ رہی ہے جنہوں نے اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
نیٹو نے کہا ہے کہ اس کی فورسز، افغان فوجیوں کی مدد کر رہی ہیں اور اس ہفتے اس نے متاثرہ علاقوں میں فضائی ذریعے سے لوگوں تک خوراک، پینے کا صاف پانی اور کمبل پہنچائے ہیں۔