عالمی ریڈ کراس کے ایک اعلیٰ اہل کار نے افغانستان کا چھ روزہ دورے کر کے وہاں کی حالت زار کا اپنی آنکوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے تسلسل اور بیرونی امداد کے منجمد ہونے سے افغانستان میں انسانی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ وہاں کی آبادی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی دشوار تر ہوتی جا رہی ہے۔
پیر کو عالمی ریڈکراس کمیٹی کے ڈائریکٹر آف آپریشنز ڈومینک سٹل ہارٹ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ وہ چھ روز تک افغانستان میں رہے۔ وہاں کے فیلڈ اسپتالوں کا تفصیلی دورہ کیا اور افغانوں کی تکالیف کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ''قندھار کے سب سے بڑے اسپتال کے بچوں کے وارڈ میں جا کر بھوک سے بلکتے ہوئے بچّوں کی بے نور آنکھوں اور مایوس والدین کی بے بسی کی حالت دیکھی، یہ صورت حال میرے لیےسخت غم و غصّے کا باعث بنی''۔
اس ماہ کے اوائل میں اقوام متحدہ نے انتباہ کیا تھا کہ اگر مزید فنڈز فراہم نہ ہوئے تو اس موسم سرما میں افغانستان کی لگ بھگ چار کروڑ آبادی کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہو گی، یعنی تقریباً آدھی آبادی بھوکی ہو گی۔ عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ ایندھن، خوراک اور کھاد کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ افغانستان کے بحران کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔
سٹل ہارٹ نے اپنے بیان یہ بھی کہا کہ اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ شہریوں کی یہ حالت زار "انسانوں کی پیدا کردہ" ہے۔ اگست میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بین الاقوامی برادری نے جس طرح یہ پابندیاں لگائیں، اسی کے نتیجے میں افغان عوام اس حال کو پہنچے ہیں۔
بین الاقوامی برادری نے انسانی حقوق کو بنیاد بنا کر طالبان حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا، خاص طور سے اسلام پسند حکومت کے دور میں عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ پر سوالات اٹھائے گئے۔ طالبان نے ملازمتوں کے بہت سے مواقع عورتوں کے لیے بند کر دیے اور اکثر عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے حصول پر پابندی لگا دی۔
چونکہ طالبان حکومت کو سفارتی طور پر جائز تسلیم نہیں کیا گیا، اس لیے افغانستان کو ملنے والی اربوں ڈالر کی بیرونی امداد معطل ہو گئی اور دس ارب سے زائد افغان اثاثے منجمد کر دیے گئے، جو زیادہ تر امریکہ میں ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے طالبان نہ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دے سکے اور نہ اشیائے ضرورت درآمد کر سکے۔
سٹل ہارٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ کی حالیہ قراردادیں اور عمومی اقتصادی پابندیوں کو سامنے رکھتے ہوئے امداد کنندگان افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد کی ترسیل کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور ہوئے اور اس میں بھی وقفہ آ گیا۔ اس کی وجہ سے شہریوں کی زندگی بچانے والی امداد سے بھی افغان عوام محروم ہو گئے۔
افغانستان کے صحت عامہ کے نظام کو بچانے کی خاطر عالمی ریڈکراس کمیٹی پیر سے اٹھارہ علاقائی اور صوبائی طبّی اداروں کو امداد فراہم کر رہی ہے ، جس میں روز مرہ کے اخراجات، طبی ساز و سامان اور ادویات کی فراہمی شامل ہے۔ عالمی ریڈ کراس کمیٹی فی الحال چھ مہینے کے لیے یہ خصوصی امداد جاری رکھے گی۔
رائیٹرز کے مطابق، ملازمین کو پیر سے تنخواہیں ملنا شروع ہو گئی ہیں۔
سٹل ہارٹ کے مطابق، قندھار کے میر واعظ اسپتال میں وسط اگست سے لے کر ستمبر تک کم غذائیت، جسم میں پانی کی کمی (ڈی ہائیڈریشن) اور نمونیا کے کیسیز میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طبّی دیکھ بھال اور تعلیم کے مستقبل کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ افغانستان کے بارے میں کچھ کریں۔ صرف اسی طرح وہاں کی صحت اور تعلیم جیسی بنیادی خدمات کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ انسان دوست اقدامات کی راہ میں سیاسی مصلحتوں کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔