ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) کے سربراہ، پیٹر مورر نے کہا ہے کہ افغانستان کو انسانی بحران کی سنگین صورت حال درپیش ہے اور امدادی تنظیمیں ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر عملے کو مقامی کرنسی میں تنخواہ دینے کے لیے مشکلات سے دوچار ہیں، کیونکہ اس وقت بینکوں میں تنخواہیں منتقل کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان بھی اس سے قبل یہ مسئلہ بیان کر چکے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ ہفتے متنبہہ کیا تھا کہ ملک انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے اور تباہ ہوتی ہوئی معیشت شدت پسندی کے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ اگست سے، جب سے طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے، ملکی معیشت اندازاً 40 فی صد تک کی شرح سے سکڑ چکی ہے۔
جنیوا میں قائم ریڈ کراس کا ادارہ پچھلے 30 برس سے زائد عرصے سے افغانستان میں کام کر رہا ہے۔ اس وقت عبوری طور پر ادارہ اس غریب ملک میں ڈالر کی نقدی لیے کام کر رہا ہے اور ڈالروں کو مقامی کرنسی میں تبدیل کر کے اپنے عملے کو تنخواہ دے رہا ہے۔ اس کام میں آئی سی آر سی کو امریکی محکمہ خزانہ کے فارن ایسٹ کنٹرول (بیرون ممالک اثاثوں کے کنٹرول) کے شعبے سے ریگولیٹری اجازت حاصل ہے۔
ادارے نے طالبان کی زیر تحویل وزارت صحت کے ساتھ ایک سمجھوتا طے کر رکھا ہے جس میں یہ اجازت شامل ہے کہ عطیہ دہندگان کی رقوم طالبان کو ملوث کیے بغیر آئی سی آر سی کے ذریعے متعلقہ ملازمین کو فراہم ہوں گی، چونکہ ابھی تک بین الاقوامی طور پر کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا۔
دبئی میں جمعرات کو ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں پیٹر مورر نے بتایا کہ ''افغانستان کا اصل مسئلہ بھوک کا نہیں۔ اہم مسئلہ سماجی خدمات کے عوض تنخواہ دینے کے لیے نقدی کی فراہمی کا نہ ہونا ہے، جو سہولت پہلے دستیاب ہوا کرتی تھی''۔
انھوں نے مزید کہا کہ ''ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ زیادہ تر ڈاکٹر، نرسیں، پانی اور بجلی کا نظام چلانے سے وابستہ عملہ وہی ہے جو پہلے تھا۔ ہوا یہ ہے کہ قیادت تبدیل ہو گئی ہے، لیکن یہ افراد وہی ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے''۔
افغانستان کی معیشت کا انحصار امداد پر ہے، جسے اگست میں طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد انتہائی بگاڑ کی صورت حال سے واسطہ پڑا، جب امریکہ کی فوج کے ملک سے انخلا کے چند ہی ہفتوں کے اندر امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت تعطل کا شکار ہو گئی۔
حالیہ دنوں کے دوران طالبان قیادت نے غیر ملکی کرنسی میں رقوم کے تبادلے پر بندش عائد کر دی ہے۔ ساتھ ہی طالبان نے امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی حکومت کی جانب سے اساتذہ، ڈاکٹروں اور دیگر سرکاری شعبہ جات کے ملازمین کو تنخواہ دینے میں مدد کے لیے افغانستان کے منجمد بیرون ملک اثاثے جاری کیے جائیں۔ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد امریکہ نے افغان مرکزی بینک کی ملکیت تقریباً 9.5 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے تھے اور نقدی کی فراہمی روک دی تھی۔
رواں موسم سرما کے دوران طالبان کی جانب سے اقتدار میں آنے کے بعد بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ افغانستان کے اکاؤنٹس میں رقوم منتقل کر سکیں، چونکہ اس وقت ملک میں موجود بینکوں کے نیٹ ورک بین الاقوامی کرنسی کو مقامی سکے میں تبدیل نہیں کر سکتے۔
مورر نے کہا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والی تنظیمیں ملک میں ہونے والی کایا پلٹ میں دخل اندازی نہیں کر سکتیں، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں نقدی پہنچانے کا کوئی انتظام کیا جا سکے، جو، ان کے کہنے کے مطابق، طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کیے بغیر بھی ممکن ہے۔ وسط 2022ء تک کا آئی سی آر سی کا بجٹ 9 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر لگ بھگ 16 کروڑ 30 لاکھ ڈالر ہو گیا ہے، تاکہ افغانستان کی بڑھتی ہوئی فوری ضروریات پوری کی جا سکیں۔
بھوک کئی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے جس سے ملک کے لاکھوں افراد متاثر ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک نے انتباہ جاری کیا ہے کہ افغانستان کے تقریباً 90 لاکھ افراد کو ''قحط سالی جیسی صورت حال کا سامنا ہے''؛ جب کہ ایک کروڑ 41 لاکھ افغان باشندوں کو خوراک کی شدید کمی درپیش ہے۔
مورر نے کہا کہ اگر قحط سالی اناج کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے اور اگر معیشت میں بگاڑ کی یہی رفتار جاری رہتی ہے تو ملک بھوک کے بحران کی صورت حال کی دلدل میں پھنس کر رہ جائے گا۔ لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت افغانستان کے ملازمین کو تنخواہ دینا ایک اہم مسئلہ ہے، تاکہ بنیادی خدمات کے شعبہ جات کام جاری رکھ سکیں۔
حال ہی میں مورر نے افغانستان کا دورہ کیا، جس دوران انھوں نے طالبان کے چوٹی کے راہنما، ملا عبدل الغنی برادر سے ملاقات کی۔
افغانستان میں آئی سی آر سی کے تقریباً 1800 ملازمین ہیں، جو سارے ہی مقامی لوگ ہیں۔
[اس میں خبر میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے]