افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ کابل میں عاشورہ کے موقع پرشعیہ مسلمانوں کی عبادت گاہ پرحملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 80 ہوگئی ہے۔
افغان دارالحکومت میں اتوار کو ایک تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 6 دسمبر کے بم دھماکے اُن لوگوں نے کیے جو ملک کا امن اور استحکام خراب کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
اس سے قبل افغان حکام نے اس حملے میں 56 افراد کی ہلاکت اور 160 سے زائد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔
وسطی کابل میں کیے گئے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان کی کالعدم انتہا پسند سنی تنظیم، لشکر جھنگوی، کے ایک دھڑے نے قبول کی تھی۔
ایک روز قبل افغانستان کے لیے امریکہ کے سفیر نے ایک بیان میں توقع ظاہر کی تھی کہ شیعہ رہنماؤں کی طرف سے اپنی برادری کو پرسکون رہنے کی اپیلوں کے تناظر میں ملک کی تاریخ میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف کی گئی یہ بد ترین کارروائی شورش زدہ افغانستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا باعث نہیں بنے گی۔
طالبان کے ایک ترجمان کے بقول تنظیم کی قیادت نے ایک حالیہ اجلاس میں عاشورہ کے موقع پرکیے گئے اس بم دھماکے کی مذمت کی تھی۔
صدر کرزئی نے اپنی تقریر میں بدعنوانی کے مسئلے پر بھی خیال آرائی کرتے ہوئے امریکہ سے کہا کہ وہ افغانستان کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ عبدالقادر فطرت کو وطن واپس بھیجے۔ افغان حکام نے فطرت اور کئی دیگر افراد کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کررکھے ہیں کیونکہ یہ تمام لوگ کابل کے مرکزی بینک میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہے۔
فطرت جون میں ملک سے فرار ہونے کے بعد امریکی ریاست ورجینیا چلے گئے تھے۔ اُنھوں نے بیرون ملک جانے کی وجہ کابل بینک سے متعلق اسکینڈل میں انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بتائی تھی۔ ان کے بقول افغان حکومت لاکھوں کروڑوں ڈالرز کے اس اسکینڈل میں ملوث اہم سیاسی شخصیات کو گرفتار کرنے کی بجائے انھیں اور ان کے دیگر ساتھیوں کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتی ہے۔