کابل —
2014 کا سال نزدیک آ رہا ہے جب افغانستان سے بین الاقوامی لڑاکا فوجی رخصت ہو جائیں گے ۔اب فکر یہ ہے کہ کیا افغان فوج، طالبان جیسے انتہا پسند گروپوں سے ملک کو محفوظ رکھ سکے گی۔ کابل میں سابق سرکاری اور فوجی عہدے کاروں کا کہنا ہے کہ نسلی تفریق اور سیاسی دھڑے ملک میں امن کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔
افغان فوج کے سپاہیوں کی تعداد اب تقریباً ایک لاکھ چوراسی ہزار ہو گئی ہے۔ پولیس فورس ایک لاکھ چھیالیس ہزار کی نفری پر مشتمل ہے ۔
اگر صرف تعداد کے لحاظ سے دیکھیں، تو یہ تاثر ملتا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز اب اپنے اس ہدف کے قریب پہنچ گئی ہیں جو انتہا پسندوں کے خطرے سے ملک کا دفاع کرنے کے لیے درکار ہے۔
لیکن سابق فوجی اور سرکاری عہدے دار انتباہ کر رہے ہیں کہ 2014 میں افغانستان کو صرف طالبان اور دہشت گردوں کے خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض نسلوں سے تعلق رکھنے والے جنگی سرداروں نے خود کو مسلح کرنا شروع کر دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں اثر و رسوخ اور علاقے پر تسلط کے لیے خون خرابہ شروع ہو سکتا ہے ۔
یہ نسلی دھڑے، جن کے بارے میں تجزیہ کار وں کا خیال ہے کہ وہ حکومت، فوج ، یہاں تک کہ صوبوں تک میں موجود ہیں، جنگی سرداروں کے کنٹرول میں ہیں اور یہ تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں ۔
صوبہ غزنی کے سابق گورنر شیر خوستی کہتے ہیں’’اندیشہ یہ ہے کہ 2014 کے بعد فوج ایک بار پھر منتشر ہو جائے گی کیوں کہ یہ بہت سے دھڑوں پر مشتمل ہے۔ فوج کے بیشتر جنرلوں کا تعلق شمال سے ہے، اور اب مجھے علم ہے کہ وہ بھاری اسلحہ بھی شمال کی طرف منتقل کر رہے ہیں۔ مستقبل میں اس سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم ان مسائل پر توجہ دیں اس سے پہلے کہ یہ اتنے سنگین ہو جائیں کہ ان پر قابو پانا ممکن ہی نہ رہے۔‘‘
طالبان افغانستان کے بیشتر حصوں میں موجود ہیں، لیکن ان کا زور جنوب کے پشتون علاقے میں سب سے زیادہ ہے۔ شمال کا علاقہ ، ناردرن الائنس کے تاجک، ازبک اور ہزارہ کمانڈروں کے زیرِ تسلط ہے۔
کابل کے ملٹری ٹریننگ سینٹر کے سربراہ، بریگیڈیر جنرل امین اللہ پاتیانی کہتے ہیں کہ فو ج میں بھرتی ہونے والوں کا تعلق بہت سے نسلی گروپوں سے ہے۔
’’پشتون، تاجک، ازبک، ہزارہ،پشائی، نورستانی، بلوچ، افغانستان کی تمام قومیتوں کے لوگ یہاں آ سکتے ہیں۔ ہم ان سب کو تربیت دیتے ہیں۔‘‘
1989 میں سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کے بعد، افغانستان میں ہولناک خانہ جنگی ہوئی جو بڑی حد تک نسلی خطوط پر لڑی گئی ۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 2014 میں صورت حال مختلف ہو گی ۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک میں اب شہری ادارے کام کر رہے ہیں اور یہ توقعات بھی ہیں کہ امریکی فوج ملک میں 10,000 افراد کا عملہ موجود رکھے گی ۔ لیکن وہ یہ انتباہ بھی کرتے ہیں کہ افغانستان کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہو گا کہ آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج خود کو کتنی اچھی طرح یکجا رکھتی ہے۔
خوستی نے انتباہ کیا ہے کہ افغان فوج میں پشتونوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے لحاظ سے کم ہے، اور بیشتر کمانڈروں کا تعلق شمال سے ہے ۔
سیاسی تجزیہ کار خالد مفتون کہتے ہیں کہ افغانستان کی سیکورٹی فورسز میں اور وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ میں بہت سے لوگوں کا تقرر اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ وہ کس مخصوص سیاسی یا نسلی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح بین الاقوامی فوجوں کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد، ان گروپوں کے درمیان نسلی تصادم کا خطرہ موجود ہے ۔ مفتون کہتے ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ حالات بہت زیادہ خراب ہو جائیں گے۔
’’اگر امریکہ افغانستان کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے، تو میں نے جو عوامل بیان کیے ہیں، ان کی وجہ سے یہ فوج یقیناً منتشر ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ اس میں چند دن یا ہفتے نہ لگیں، شاید زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ لگے، تو پھر کیا ہوگا؟ کون اس فوج کی جگہ لے گا؟ ظاہر ہے کہ طالبان۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ملک میں مختلف گروپوں نے ممکنہ تصادم کے پیشِ نظر اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے، تو مفتون نے بلا جھجک جواب دیا کہ ہاں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تین عشروں کی جنگ کے بعد، اور بلیک مارکیٹ میں افیون کی بے تحاشا فروخت کے نتیجے میں، افغانستان میں ہتھیاروں کی کوئی کمی نہیں ۔
افغان فوج کے سپاہیوں کی تعداد اب تقریباً ایک لاکھ چوراسی ہزار ہو گئی ہے۔ پولیس فورس ایک لاکھ چھیالیس ہزار کی نفری پر مشتمل ہے ۔
اگر صرف تعداد کے لحاظ سے دیکھیں، تو یہ تاثر ملتا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز اب اپنے اس ہدف کے قریب پہنچ گئی ہیں جو انتہا پسندوں کے خطرے سے ملک کا دفاع کرنے کے لیے درکار ہے۔
لیکن سابق فوجی اور سرکاری عہدے دار انتباہ کر رہے ہیں کہ 2014 میں افغانستان کو صرف طالبان اور دہشت گردوں کے خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض نسلوں سے تعلق رکھنے والے جنگی سرداروں نے خود کو مسلح کرنا شروع کر دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں اثر و رسوخ اور علاقے پر تسلط کے لیے خون خرابہ شروع ہو سکتا ہے ۔
یہ نسلی دھڑے، جن کے بارے میں تجزیہ کار وں کا خیال ہے کہ وہ حکومت، فوج ، یہاں تک کہ صوبوں تک میں موجود ہیں، جنگی سرداروں کے کنٹرول میں ہیں اور یہ تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں ۔
صوبہ غزنی کے سابق گورنر شیر خوستی کہتے ہیں’’اندیشہ یہ ہے کہ 2014 کے بعد فوج ایک بار پھر منتشر ہو جائے گی کیوں کہ یہ بہت سے دھڑوں پر مشتمل ہے۔ فوج کے بیشتر جنرلوں کا تعلق شمال سے ہے، اور اب مجھے علم ہے کہ وہ بھاری اسلحہ بھی شمال کی طرف منتقل کر رہے ہیں۔ مستقبل میں اس سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم ان مسائل پر توجہ دیں اس سے پہلے کہ یہ اتنے سنگین ہو جائیں کہ ان پر قابو پانا ممکن ہی نہ رہے۔‘‘
طالبان افغانستان کے بیشتر حصوں میں موجود ہیں، لیکن ان کا زور جنوب کے پشتون علاقے میں سب سے زیادہ ہے۔ شمال کا علاقہ ، ناردرن الائنس کے تاجک، ازبک اور ہزارہ کمانڈروں کے زیرِ تسلط ہے۔
کابل کے ملٹری ٹریننگ سینٹر کے سربراہ، بریگیڈیر جنرل امین اللہ پاتیانی کہتے ہیں کہ فو ج میں بھرتی ہونے والوں کا تعلق بہت سے نسلی گروپوں سے ہے۔
’’پشتون، تاجک، ازبک، ہزارہ،پشائی، نورستانی، بلوچ، افغانستان کی تمام قومیتوں کے لوگ یہاں آ سکتے ہیں۔ ہم ان سب کو تربیت دیتے ہیں۔‘‘
1989 میں سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کے بعد، افغانستان میں ہولناک خانہ جنگی ہوئی جو بڑی حد تک نسلی خطوط پر لڑی گئی ۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 2014 میں صورت حال مختلف ہو گی ۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک میں اب شہری ادارے کام کر رہے ہیں اور یہ توقعات بھی ہیں کہ امریکی فوج ملک میں 10,000 افراد کا عملہ موجود رکھے گی ۔ لیکن وہ یہ انتباہ بھی کرتے ہیں کہ افغانستان کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہو گا کہ آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج خود کو کتنی اچھی طرح یکجا رکھتی ہے۔
خوستی نے انتباہ کیا ہے کہ افغان فوج میں پشتونوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے لحاظ سے کم ہے، اور بیشتر کمانڈروں کا تعلق شمال سے ہے ۔
سیاسی تجزیہ کار خالد مفتون کہتے ہیں کہ افغانستان کی سیکورٹی فورسز میں اور وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ میں بہت سے لوگوں کا تقرر اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ وہ کس مخصوص سیاسی یا نسلی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح بین الاقوامی فوجوں کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد، ان گروپوں کے درمیان نسلی تصادم کا خطرہ موجود ہے ۔ مفتون کہتے ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ حالات بہت زیادہ خراب ہو جائیں گے۔
’’اگر امریکہ افغانستان کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے، تو میں نے جو عوامل بیان کیے ہیں، ان کی وجہ سے یہ فوج یقیناً منتشر ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ اس میں چند دن یا ہفتے نہ لگیں، شاید زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ لگے، تو پھر کیا ہوگا؟ کون اس فوج کی جگہ لے گا؟ ظاہر ہے کہ طالبان۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ملک میں مختلف گروپوں نے ممکنہ تصادم کے پیشِ نظر اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے، تو مفتون نے بلا جھجک جواب دیا کہ ہاں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تین عشروں کی جنگ کے بعد، اور بلیک مارکیٹ میں افیون کی بے تحاشا فروخت کے نتیجے میں، افغانستان میں ہتھیاروں کی کوئی کمی نہیں ۔