افغانستان کے طالبان کے نئے امیر ملا اختر منصور نے مشرق وسطیٰ میں موجود تحریک کے دیگر اہم رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں اور بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی "روئٹرز" کے مطابق انھوں نے حالیہ دنوں میں اپنے مندوب کو ان رہنماؤں سے ملاقات کے لیے بھیجا ہے۔
جولائی کے اواخر میں طالبان تحریک کے سربراہ ملا عمر کی وفات کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد ملا اختر منصور کو نیا امیر مقرر کیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی طالبان کے مختلف دھڑوں میں اس تقرر کو لے کر اختلافات پیدا ہوگئے۔
ملا منصور، ملا عمر کے نائب رہ چکے ہیں اور ان پر یہ کہہ کر تنقید کی جارہی ہے کہ انھوں نے جان بوجھ کر ملا عمر کے انتقال کی خبر کو چھپائے رکھا۔
ملا عمر کا انتقال 2013ء میں ہوا تھا اور ملا منصور کا موقف ہے کہ انھوں نے یہ خبر 2014ء میں افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے تناظر میں طالبان کو متحد رکھنے کی غرض سے افشا نہیں کی تھی۔
طالبان کے ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں ملا منصور نے ملا جلیل کو مشرق وسطیٰ بھیجا کیونکہ وہاں مقیم قیادت سے ان کے اچھے مراسم ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ رہنما ملا منصور کی کھل کر حمایت کریں۔
طالبان کے سابق امیر کی موت اور نئے سربراہ کے انتخاب کے بعد سے افغانستان میں ایک بار پھر عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ جولائی میں افغان حکومت سے طالبان کی شروع ہونے والی بات چیت بھی تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔
ادھر امریکی خبر رساں ایجنسی "اے پی" کے مطابق جمعرات کو دیر گئے طالبان نے افغانستان میں امریکی فضائی اڈے پر میزائل داغے لیکن اس میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس حملے کے بارے میں واشنگٹن کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
صوبہ پروان کے ضلع بگرام کے پولیس سربراہ معصوم فرازہی کے مطابق حملہ آوروں نے بگرام ایئر بیس پر چار میزائل داغے جن میں سے تین اڈے کے اندر گرے لیکن اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
واقعے کے بعد افغان پولیس اور فوج کی بھاری نفری کو اس فضائی اڈے کے گرد تعینات کر دیا ہے۔