افغانستان کے صدر اشرف غنی نے رواں ہفتے بھارت کا دو روزہ دورہ کیا، جہاں دونوں ملکوں کے درمیان دفاع اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔
اپنے اس دورے کے دوران افغان صدر نے پاکستان کو ایک بار پھر ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ کوئی تیسرا ملک بھارت اور افغانستان کے درمیان تعاون کو کیسے روک سکتا ہے۔
بھارت میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں صدر اشرف غنی نے الزام عائد کیا کہ پاکستان میں ’’جنگ جاری ہے، جس کے بارے میں میڈیا نہیں بولتا۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں پاکستانی فورسز کے دو لاکھ سات ہزار اہلکار تعینات ہیں۔ اس تشدد کو ختم ہونا چاہیئے اور اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس روکنا چاہیئے۔‘‘
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں افغان صدر کے بیان کو ’مایوس کن‘قرار دیا۔
’’یقیناً یہ بیان کسی طور مدد گار نہیں ہے اور مایوس کن ہے۔ افغان قیادت کی طرف اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے لیے کس قدر کوششیں کر رہا ہے اور مسلسل کرتا رہے گا۔‘‘
نفیس ذکریا نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور علاقائی امن کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون بہت ضروری ہے۔
’’یہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ نا صرف مل کر کام کریں بلکہ دونوں ملک اپنی سر زمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نا ہونے دیں، یہ ہمارا پختہ عزم ہے جس پر ہم کاربند رہیں گے۔‘‘
پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ رکن رانا افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صدر اشرف غنی کا ایک سیاسی بیان ہے جو اُن کے بقول بھارت کے زیر اثر دیا گیا ہے۔
’’ہماری خارجہ پالیسی صرف پاکستان کے مفاد میں ہو گی اور ہمارے کسی ہمسایا ملک کے خلاف نہیں ہو گی، اُن کے مفاد کو بھی سبوتاژ نہیں کریں گے لیکن اپنے مفاد کو مقدم رکھیں گے۔‘‘
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر سیاستدان اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صدر اشرف غنی کا پاکستان سے متعلق بیان مناسب نہیں ہے۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ مناسب نہیں ہے، اس سے قبل وارسا میں (نیٹو کے اجلاس کے موقع پر بھی صدر غنی) کا بیان بہت سخت تھا۔ اب بھارت کی آواز کے ساتھ اُنھوں نے اپنی آواز ملائی ہے۔ ایسا بیان مناسب نہیں ہے کیوں کہ پاکستان افغانستان کا ایک ہمسایہ ملک ہے۔ پاکستان میں اب بھی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین مقیم ہیں۔‘‘
آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ علاقائی ممالک کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کا مسئلہ سب کے تعاون اور اشتراک ہی سے ختم ہو گا۔
’’اگر ہماری ایک دوسرے سے بداعتمادی کی فضا اسی طرح قائم رہی تو یہ (دہشت گردی) کا مسئلہ مزید الجھے گا اور اُس کا نقصان پورے خطے کو ہو گا۔‘‘
صدر اشرف غنی کے اس دورے کے دوران بھارت کی طرف سے افغانستان میں مختلف شعبوں کو بہتر بنانے کے لیے ایک ارب ڈالر امداد کا اعلان بھی کیا گیا۔
حال ہی میں افغانستان، بھارت اور ایران نے چابہار بندرگاہ سے متعلق ایک سہ فریقی معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے۔ ایران کے علاقے چابہار میں بندرگاہ کی تعمیر کے اس منصوبے کو تینوں ممالک انتہائی اہم تصور کرتے ہیں۔
اس بندرگاہ پر دو ٹرمینل اور دیگر تعمیرات پر بھارت 50 کروڑ ڈالر خرچ کرے گا، اشرف غنی نے اپنے دورہ بھارت کے دوران کہا کہ اُن کا ملک اب ’لینڈ لاک‘ یعنی خشکی میں گرا ہوا نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں اس بات پر کیوں تشویش ہو کہ ایک ملک (پاکستان) دو عظیم ممالک (بھارت اور افغانستان) کے درمیان تجارت کو روک سکتا ہے۔‘‘
افغان صدر کے اس دورے کے دوران چابہار بندر گاہ سے متعلق بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے سہ فریقی معاہدے پر تیزی سے عمل درآمد پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔
پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آ چکے ہیں کہ پاکستان ایران کی بندرگاہ چابہار سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور گوادر اور چابہار کو جوڑنے کے لیے سڑک بھی تعمیر کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں بعض حلقوں میں اس تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ علاقے میں چابہار اور گوادر بندرگاہ کے درمیان مسابقت سے علاقائی روابط اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ متاثر ہو گا۔
تاہم سرکاری طور پر پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز ایک بیان میں ایسےتحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان دو مختلف منصوبوں میں آپس میں کوئی تضاد نظر نہیں آ رہا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اپنے ایک حالیہ میں بیان میں کہا ہے کہ دو خودمختار ممالک کے درمیان تعاون پر اُن کے ملک کوئی اعتراض نہیں۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اگر بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا تو اسلام آباد خاموش نہیں رہے گا۔
افغان عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ بھارت اور افغانستان کے درمیان تعلقات پر نظر رکھنے کی بجائے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ پر توجہ دے۔
دریں اثنا افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے امریکی سینیٹ کی خارجہ اُمور کمیٹی کے سامنے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں بشمول القاعدہ کے خلاف موثر کارروائی کی ہے تاہم اُن کے بقول اس ضمن میں مزید پیش رفت کی ضرورت ہے۔
رچرڈ اولسن نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششیں قابل ستائش ہیں لیکن اُن کے بقول دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے تمام گروپوں بشمول ایسے گروہوں کے خلاف بھی بلا امتیاز کارروائی ضروری ہے جو دیگر ملکوں کے لیے خطرہ ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اُن تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے جو اس کے پڑوسی ممالک کے لیے خطرہ ہیں۔
پاکستانی عہدیداروں کا یہ موقف رہا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے اور پاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔