افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ملک میں امن قائم کرنا ماضی کی نسبت زیادہ ممکن ہے۔
جمعرات کو عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ تمام افغان امن چاہتے ہیں اور جنہوں نے ہم پر جنگ مسلط کی ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ دوسرے کے آلہ کار ہیں۔
جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان سے گزشتہ سال کے اواخر میں بین الاقوامی افواج اپنا لڑاکا مشن مکمل کر کے واپس چلی گئی تھیں جس کے بعد طالبان کی عسکریت پسندانہ کارروائیوں میں قابل ذکر اضافہ دیکھا گیا۔
رواں سال جولائی میں پاکستان کی میزبانی میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات ہوئی تھی جسے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا تھا۔
لیکن طالبان کے امیر ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے اور پھر ملا اختر منصور کو نیا امیر مقرر کیے جانے سے طالبان دھڑوں میں اختلافات کے باعث یہ سلسلہ تعطل کا شکار ہوا اور اگست کے اوائل میں کابل میں پے در پے ہلاکت خیز حملوں نے امن کی کوششوں کو مزید نقصان پہنچایا۔
دو روز قبل ہی طالبان کے سربراہ ملا منصور نے عید کے حوالے سے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ اس وقت تک بات چیت نہیں ہو سکتی جب تک افغان حکومت امریکہ اور نیٹو سے سکیورٹی معاہدے کو منسوخ نہیں کر دیتی اور تمام بین الاقوامی فورسز افغانستان سے واپس نہیں چلی جاتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کابل انتظامیہ ملک میں قیام امن چاہتی ہے تو یہ اُسی صورت ممکن ہے جب ملک سے ’’قبضہ‘‘ ختم کرایا جائے۔
اس وقت دو مختلف سکیورٹی معاہدوں کے تحت 14000 بین الاقوامی فوجی افغانستان میں ہیں جو کہ مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ ان میں اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے۔
طالبان کے آپسی اختلافات تو تحریک کے مرحوم امیر ملا عمر کے بھائی اور بیٹے کی طرف سے ملا منصور کی حمایت کے بعد کسی حد تک ختم ہو گئے ہیں لیکن افغان حکومت سے ان کے مذاکرات کا مستقبل تاحال واضح نہیں ہے۔