رسائی کے لنکس

افغان امن عمل کے لیے آئندہ چند ماہ نازک ہیں: مبصرین


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغان تجزیہ کار ہارون میر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب سے اشرف غنی نے منصب صدارت سنبھالا۔ اُنھوں نے طالبان سے امن مذاکرات پر بہت زور دیا ہے۔

افغانستان میں امن و مصالحت کے لائحہ عمل کی تیاری و نگرانی کے لیے قائم چار ملکی گروپ کی کوششوں سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات مارچ کے پہلے ہفتے میں متوقع تھے۔

لیکن گزشتہ ہفتہ کے روز افغان طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد کی طرف سے ایک بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ ملک سے بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلا تک طالبان بات چیت کے عمل میں شریک نہیں ہوں گے۔

لیکن افغان صدر اشرف غنی نے اتوار کو پارلیمان کے اجلاس سے خطاب میں طالبان پر ایک بار پھر زور دیا تھا کہ وہ مذاکرات میں شامل ہوں کیونکہ اُن کے بقول امن ہی سب کے مفاد میں ہے۔

افغان عہدیدار اس توقع کا اظہار کر رہے کہ طالبان سے امن مذاکرات کی بحالی چند ہفتوں میں متوقع ہے۔ لیکن طالبان کی طرف سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

بعض افغان اور پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں آئندہ چند ماہ بہت نازک ہیں۔

افغان تجزیہ کار ہارون میر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب سے اشرف غنی نے منصب صدارت سنبھالا۔ اُنھوں نے طالبان سے امن مذاکرات پر بہت زور دیا ہے۔

ہارون میر نے کہا کہ اُن کے خیال میں ’’طالبان حکومت سے مذاکرات سے انکار نہیں کریں گے بلکہ وہ سنجیدہ بات چیت سے قبل کچھ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ کیوں کہ اُنھوں نے 2015ء میں بہت سے علاقوں پر اپنا قبضہ بڑھایا۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ حکومت طالبان کے ان ارادوں سے مکمل طور آگاہ ہے اور اُن کے بقول کابل انتظامیہ کی خواہش ہے کہ موسم گرما کے آغاز سے قبل بات چیت کے ذریعے تشدد کی کارروائیوں کو روکا جائے۔

اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ موسم سرما کے آغاز پر طالبان کی کارروائیوں میں مزید تیزی آ سکتی ہے۔

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ تصور کر لینا درست نہیں کہ محض طالبان کو بات چیت کی دعوت دینے سے یہ عمل شروع ہو جائے گا۔

’’افغان حکومت کو چاہتی ہے کہ آنے والے موسم بہار اور موسم گرما میں (طالبان کے) حملوں کو کیسے روکا جائے اور انہیں کیسے کمزور کیا جائے اور ان حملوں کی تعداد کو کیسے کم کیا جائے۔‘‘

رستم شاہ مہمند نے کہا کہ طالبان سے بات چیت صرف اُسی صورت میں سود مند ہو گی جب وہ اپنی مرضی سے اس عمل میں شامل ہوں۔

’’بات اس وقت آگے بڑھے گی جب (طالبان)، اپنی شوریٰ کی اجازت سے اپنے رہنما کی اجازت مجاز نمائندوں کے ساتھ بات چیت شروع کریں گے۔‘‘

پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں پر مشتمل چار فریقی گروپ نے مصالحتی عمل کی بحالی کے لیے اب تک چار مشاورتی اجلاس کیے ہیں۔

جب کہ اس کے علاوہ حالیہ ہفتوں میں پاکستانی فوج کے سربراہ قطر کا دورہ بھی کر چکے ہیں جہاں اُنھوں نے قطر کی اعلیٰ قیادت سے افغان مصالحتی عمل پر بات چیت کی تھی۔

واضح رہے کہ افغان طالبان کا سیاسی دفتر قطر میں ہے اور طالبان کی طرف سے یہ بیانات بھی سامنے آتے رہے ہیں کہ صرف قطر دفتر ہی امن مذاکرات کے بارے میں کسی کو نامزد کرنے کا مجاز ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ نے بھی گزشتہ ہفتے کابل میں افغان صدر سے بھی امن مذاکرات سے متعلق اُمور پر بات چیت کی تھی۔

واضح رہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں مجوزہ مذاکرات کی میزبانی بھی پاکستان کرنے کی پیشکش کر رکھی تھی۔

پاکستان میں افغانستان کے سفیر عمر زخیل وال نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے ایک حالیہ انٹریو میں کہا تھا کہ افغان امن و مصالحت کے عمل میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔

گزشتہ سال جولائی میں بھی پاکستان کی میزبانی میں مری میں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے تھے لیکن طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کی خبر اچانک منظر عام پر آنے کے بعد یہ عمل معطل ہو گیا تھا۔

ملا عمر کا انتقال اگرچہ 2013ء میں ہو چکا تھا لیکن طالبان کا دعویٰ رہا ہے کہ اُنھوں نے اس خبر کو مصلحت کے تحت پوشیدہ رکھا۔

XS
SM
MD
LG