واشنگٹن پوسٹ
افغانستان میں امن کی جانب امید افزا ء علامات کے عنوان سے معروف تجزیہ کار، ڈیوڈ إگ نے ٹیس واشنگٹن پوسٹ میں رقمطراز کہ امید کی وجہ یہ ہے کہ بعض طالبان لیڈروں کو اب یہ احساس ہو چلا ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد اگر خانہ جنگی شروع ہوئی۔ تو اس میں اُنہیں کامیابی نہیں ہو سکتی۔اور اُنہیں یہ احساس ہے کہ اس وقت اُنہیں اپنی بات منوانے کی جو حیثیت حاصل ہے ، وُہ2014 میں امریکی فوجوں کے جانے کے بعدجاتی رہے گی، کیونکہ 1990 میں خانہ جنگی کے بعد اُن کےبر سر اقتدار آنےکےوقت جو صورت حال تھی۔وُہ اب بدل گئی ہے۔ تجزیہ کار کی نظر میں پاکستان اب نہ تو قابل اعتماد سیاسی مربّی ہوگا ، اور نہ ہی مالی امداد فراہم کرنے کے قابل۔ اور اب وہ شاید پناہ بھی نہ دے۔
اور جیسا کہ امریکی محکمہء دفاع کےایک عہدہ دار نے کہا ہے کہ طالبان کو اب اس کا احساس ہے کہ وُہ فوجی فتح نہیں حاصل کر سکتے ۔ وُہ امریکہ کےانخلا کا انتظار تو کر سکتے ہیں، لیکن اس کی قیمت یہ ہوگی کہ عبوری سیاسی دور میں وہ کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔
اخبار کے مطابق مصالحت کے آثار پچھلے ہفتے پیرس کے مضافات شیں ٹٕلی میں فرانس کی سرپرستی میں افغان سیاسی لیڈروں کے ایک اجلاس میں نظر آئے، جس میں طالبا ن کے بھی دو نمائندےموجودتھے ، اور طالبان کی صفوں میں مذاکرا ت کے حامی حقیقت پسند طبقے کےہاتھ اس وجہ سے مضبوط ہوئےہیں کہ مستقبل کی منصوبہ بندی میں پاکستان نے حال ہی میں امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعاون کرنا شروع کیا ہے۔ کیونکہ اس کو احساس ہو گیا ہے کہ 1990 کی دہائی میں اُس نے افغانستان میں جس خانہ جنگی کی سرپرستی کی تھی۔ اگر وُہ دوبارہ شروع ہو گئی تو وُہ اس کے مفاد میں نہیں ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف افغان حکومت بلکہ شُمالی اتّحاد سے بھی رابطہ کیا ہے، جس سے طالبان کی سخت دُشمنی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مصالحت کی جانب امریکہ کا اگلا قدم دوحہ کے اُس عمل کی بحالی ہوگا ، جو مارچ کے مہینے میں کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔ اس کے تحت قیدیوں کا تبادلہ ہوگا اور طالبان دوحہ میں اپنا ایک دفتر کھولیں گے۔ اس سے یہ امید کی جاتی ہے کہ افغانستان میں بالآخر جنگ بندی ہو جائے گی۔مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی میں امریکہ کا اصرار ہے کہ طالبان القاعدہ سے رشتہ ختم کریں، افغان آئین اورخواتین کے حقوق کو تسلیم کریں۔ إگنے ٹیس کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کے لئے حالیہ اقدامات سےلگتا ہےکہ افغا ن صورت حال بیشتر امریکیوں کے نزدیک کتنی ہی مایوس کُن کیوں نہ ہو۔ اگلے سال اس میں پیش رفت کی اُمّید دلاتے ہیں۔
فلاڈلفیا انکوائرر
ہمیں کبھی بھی امن کی تلاش سے مُنہ نہیں موڑنا چاہئے۔ اس عُنوان سے فلاڈلفیا انکوائررایک ادارئے میں کہتا ہے کہ امن کا مفہوم ادا کرنے کی اتنی ساری اصطلاحات ہیں۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ بنی نوع انسان کے لئے امن قائم کرنا ، اسے برقرار رکھنا ، اور اس میں رہنا بُہت مشکل ہو گیاہے۔ آپ دنیا کے کسی علاقے پر نظر ڈالیں، تو آپ دیکھیں گے کہ حالات امن کے منافی ہیں، اور انسانی خون ارزانی سے بہہ رہا ہے۔ شام کے بازاروں میں باغیوں اور حکومت کے درمیان تشدّد بڑھتا جا رہا ہے۔ اور اقوام عالم کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سفاک حکمران بشارالاسد کو کیونکر گدی چھوڑنے پر آمادہ کیا جائے، تاکہ اس ملک میں جمہوریت جڑ پکڑے۔ جمہوریہ کانگو میں ، جس کے بارے میں ہم خال ہی کچھ سُنتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی امن فوج کی موجودگی کے باوجود 60لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چُکے ہیں۔ غزہ کے بازاروںمیں جنگ بندی نے حماس کی طرف سے راکٹ چلنا اور اسرائیل کی طرف سے ہوائی جہازوں سے بمبار ی بند ہو چُکی ہے لیکن کسی بھی وقت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ مصر میں نئے صدر محمد موسی کی آمرانہ روش کے خلاف نو زائیدہ جمہوریت بر سر پیکار ہے۔ اور دنیا کو انتظار ہے کہ اس بُحران کا کوئی پُر امن حل نکل آئے گا۔
اور خود امریکہ کے اندر کرسمس کے مقدس تہوار سے محض دو ہفتے قبل معصوم بچوں کا خُون ناحق ہواہے۔
اخبار کہتاہے امن کا حصول کتنا بھی مشکل ہوہمیں اس کی آرزو کرنی چاہئے۔ دُعا کرنی چاہئے اسے روزمرّہ کی ذاتی زندگی کا جُزو بنانا چاہئےاور امّید کرنی چاہئے کہ کوئی دن آئے گا جب یہ دُنیا امن کا گہوارہ ہوگی۔
نیویارک ٹائمز
نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ چھ ماہ کے توقُّف کے بعد امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں کی کوشش ہے کہ ایران کے ساتھ اُس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات دوبارہ شروع کئے جائیں۔ ایران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئےچھ سال سے یورینیم کی افزودگی کرتا آیا ہے۔ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہونے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر افزودگی کی یہ سرگرمی موسم گرماکے اوائل تک بند نہ کی گئیں، تو اس پر فوجی حملہ کیا جائے گا۔
امریکی عہدہ داروں کوابھی بھی شُبہ ہے کہ ایران کے آئت اللہٰ علی خا منہ ای کسی سمجھوتے کے لئے تیا ہیں۔ ایران نے ملے جلے اشارے دئے ہیں۔ امریکہ اور دوسرے شریک کار، روس ، برطانیہ ، چین ، فرانس، اورجرمنی اسی ماہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے حق میں ہیں ۔ لیکن ایران اس کے لئے تیار نہیں تھا ۔چنانچہ جنوری تک مذکرات کا امکان نہیں۔
اخبار نے امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مذاکرات شروع ہونے پر ایران کو نئی مراعات دینے کی پیش کش کی جائے گی بشرطیکہ وہ اپنے پروگرام کو روکنے کے لئے اضافی قدم اُٹھائے۔
افغانستان میں امن کی جانب امید افزا ء علامات کے عنوان سے معروف تجزیہ کار، ڈیوڈ إگ نے ٹیس واشنگٹن پوسٹ میں رقمطراز کہ امید کی وجہ یہ ہے کہ بعض طالبان لیڈروں کو اب یہ احساس ہو چلا ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد اگر خانہ جنگی شروع ہوئی۔ تو اس میں اُنہیں کامیابی نہیں ہو سکتی۔اور اُنہیں یہ احساس ہے کہ اس وقت اُنہیں اپنی بات منوانے کی جو حیثیت حاصل ہے ، وُہ2014 میں امریکی فوجوں کے جانے کے بعدجاتی رہے گی، کیونکہ 1990 میں خانہ جنگی کے بعد اُن کےبر سر اقتدار آنےکےوقت جو صورت حال تھی۔وُہ اب بدل گئی ہے۔ تجزیہ کار کی نظر میں پاکستان اب نہ تو قابل اعتماد سیاسی مربّی ہوگا ، اور نہ ہی مالی امداد فراہم کرنے کے قابل۔ اور اب وہ شاید پناہ بھی نہ دے۔
اور جیسا کہ امریکی محکمہء دفاع کےایک عہدہ دار نے کہا ہے کہ طالبان کو اب اس کا احساس ہے کہ وُہ فوجی فتح نہیں حاصل کر سکتے ۔ وُہ امریکہ کےانخلا کا انتظار تو کر سکتے ہیں، لیکن اس کی قیمت یہ ہوگی کہ عبوری سیاسی دور میں وہ کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔
اخبار کے مطابق مصالحت کے آثار پچھلے ہفتے پیرس کے مضافات شیں ٹٕلی میں فرانس کی سرپرستی میں افغان سیاسی لیڈروں کے ایک اجلاس میں نظر آئے، جس میں طالبا ن کے بھی دو نمائندےموجودتھے ، اور طالبان کی صفوں میں مذاکرا ت کے حامی حقیقت پسند طبقے کےہاتھ اس وجہ سے مضبوط ہوئےہیں کہ مستقبل کی منصوبہ بندی میں پاکستان نے حال ہی میں امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعاون کرنا شروع کیا ہے۔ کیونکہ اس کو احساس ہو گیا ہے کہ 1990 کی دہائی میں اُس نے افغانستان میں جس خانہ جنگی کی سرپرستی کی تھی۔ اگر وُہ دوبارہ شروع ہو گئی تو وُہ اس کے مفاد میں نہیں ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف افغان حکومت بلکہ شُمالی اتّحاد سے بھی رابطہ کیا ہے، جس سے طالبان کی سخت دُشمنی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مصالحت کی جانب امریکہ کا اگلا قدم دوحہ کے اُس عمل کی بحالی ہوگا ، جو مارچ کے مہینے میں کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔ اس کے تحت قیدیوں کا تبادلہ ہوگا اور طالبان دوحہ میں اپنا ایک دفتر کھولیں گے۔ اس سے یہ امید کی جاتی ہے کہ افغانستان میں بالآخر جنگ بندی ہو جائے گی۔مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی میں امریکہ کا اصرار ہے کہ طالبان القاعدہ سے رشتہ ختم کریں، افغان آئین اورخواتین کے حقوق کو تسلیم کریں۔ إگنے ٹیس کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کے لئے حالیہ اقدامات سےلگتا ہےکہ افغا ن صورت حال بیشتر امریکیوں کے نزدیک کتنی ہی مایوس کُن کیوں نہ ہو۔ اگلے سال اس میں پیش رفت کی اُمّید دلاتے ہیں۔
فلاڈلفیا انکوائرر
ہمیں کبھی بھی امن کی تلاش سے مُنہ نہیں موڑنا چاہئے۔ اس عُنوان سے فلاڈلفیا انکوائررایک ادارئے میں کہتا ہے کہ امن کا مفہوم ادا کرنے کی اتنی ساری اصطلاحات ہیں۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ بنی نوع انسان کے لئے امن قائم کرنا ، اسے برقرار رکھنا ، اور اس میں رہنا بُہت مشکل ہو گیاہے۔ آپ دنیا کے کسی علاقے پر نظر ڈالیں، تو آپ دیکھیں گے کہ حالات امن کے منافی ہیں، اور انسانی خون ارزانی سے بہہ رہا ہے۔ شام کے بازاروں میں باغیوں اور حکومت کے درمیان تشدّد بڑھتا جا رہا ہے۔ اور اقوام عالم کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سفاک حکمران بشارالاسد کو کیونکر گدی چھوڑنے پر آمادہ کیا جائے، تاکہ اس ملک میں جمہوریت جڑ پکڑے۔ جمہوریہ کانگو میں ، جس کے بارے میں ہم خال ہی کچھ سُنتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی امن فوج کی موجودگی کے باوجود 60لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چُکے ہیں۔ غزہ کے بازاروںمیں جنگ بندی نے حماس کی طرف سے راکٹ چلنا اور اسرائیل کی طرف سے ہوائی جہازوں سے بمبار ی بند ہو چُکی ہے لیکن کسی بھی وقت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ مصر میں نئے صدر محمد موسی کی آمرانہ روش کے خلاف نو زائیدہ جمہوریت بر سر پیکار ہے۔ اور دنیا کو انتظار ہے کہ اس بُحران کا کوئی پُر امن حل نکل آئے گا۔
اور خود امریکہ کے اندر کرسمس کے مقدس تہوار سے محض دو ہفتے قبل معصوم بچوں کا خُون ناحق ہواہے۔
اخبار کہتاہے امن کا حصول کتنا بھی مشکل ہوہمیں اس کی آرزو کرنی چاہئے۔ دُعا کرنی چاہئے اسے روزمرّہ کی ذاتی زندگی کا جُزو بنانا چاہئےاور امّید کرنی چاہئے کہ کوئی دن آئے گا جب یہ دُنیا امن کا گہوارہ ہوگی۔
نیویارک ٹائمز
نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ چھ ماہ کے توقُّف کے بعد امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں کی کوشش ہے کہ ایران کے ساتھ اُس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات دوبارہ شروع کئے جائیں۔ ایران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئےچھ سال سے یورینیم کی افزودگی کرتا آیا ہے۔ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہونے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر افزودگی کی یہ سرگرمی موسم گرماکے اوائل تک بند نہ کی گئیں، تو اس پر فوجی حملہ کیا جائے گا۔
امریکی عہدہ داروں کوابھی بھی شُبہ ہے کہ ایران کے آئت اللہٰ علی خا منہ ای کسی سمجھوتے کے لئے تیا ہیں۔ ایران نے ملے جلے اشارے دئے ہیں۔ امریکہ اور دوسرے شریک کار، روس ، برطانیہ ، چین ، فرانس، اورجرمنی اسی ماہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے حق میں ہیں ۔ لیکن ایران اس کے لئے تیار نہیں تھا ۔چنانچہ جنوری تک مذکرات کا امکان نہیں۔
اخبار نے امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مذاکرات شروع ہونے پر ایران کو نئی مراعات دینے کی پیش کش کی جائے گی بشرطیکہ وہ اپنے پروگرام کو روکنے کے لئے اضافی قدم اُٹھائے۔