کیا افغان لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کرنے میں طالبان کے رویّے میں نرمی آگئی ہےَ ؟اِس پر’ انٹرنیشنل ٹربیون‘ میں ایک تفصیلی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سالہا سال تک طالبان ، افغانستان کی حکومت اور افغان فوج کی ہرزہ سرائی کرتے آئے ہیں اوراُنہیں مغرب کی قابض فوج کا بدعنوان آلہٴ کار قرار دیتے آئے ہیں۔
لیکن، اب اُنہوں نے اعلانیہ نرم لہجہ اختیار کیا ہے اور اُن کے سر کردہ باغی لیڈر اب کہہ رہے ہیں کہ اُن کے شدّت پسند اب دوسرے افغان دھڑوں کے ساتھ مل کر حکومت کرنے پر تیار ہیں، حتیٰ کہ امریکی مالی امداد سے جو فوج تیار ہوئی ہے وُہ اس کو بھی اپنانے کے لئے تیا رہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ حالیہ دنوں میں طالبان کا یہ پیغام اُن کے ایلچیوں نے افغان عہدہ داروں اور افغان حزب اختلاف کے سیاست دانوں تک پیرس کے نزدیک ایک ملاقات کے دوران پہنچا دیا تھا۔
اِن مذاکرات میں شریک ارکان کےحوالے سے اخبار نے بتایا ہے کہ طالبان کے نرم رویّے کی تصدیق اُن طالبان شخصیات نےانٹرویوز میں کی ہے جو اِس تنظیم کے برائے نام لیڈر ملّا عمر کے وفادار ہیں۔
طالبان کی سینئر قیادت نے ایک طرح باقاعدگی کے ساتھ یہ جتا دیا ہے کہ سنہ 2014 میں افغانستان میں نیٹو کا مشن ختم ہو جائے گا، تو وُہ فاتح حکمرانوں کی حیثیت کی بجائے، افغانستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے کا م کرنے کے لئے تیار ہونگے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس وقت طالبان کی اُوپری قیادت میں اقتدار کی جنگ جاری ہے اور اعتدال پسند فوجی کمانڈر ،سخت گیر فوجی کمانڈر ملّا ذاکر کو، جو گوانتانمو کا قیدی رہ چُکا ہے، ہٹانا چاہتے ہیں، تاکہ اس کی جگہ اس کے کسی اعتدال پسندحریف کو مقرر کیا جائے۔ملّا ذاکر کی جگہ سنبھالنے کا ایک امید وار ملا عمر کا نسبتاً اعتدال پسند معاون ملا محمد منصور ہے۔
منگل اور جمعے کو پیرس کے نزدیک اس کانفرنس میں ملا منصور کے دو وفادار ساتھیوں نے طالبان کی نمائندگی کرتے ہوئے پیش کش کی تھی کہ وُہ حکومت کرنے کے لئے پھر تیار ہیں، لیکن موجودہ افغان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اور جن لوگوں نے اُن کے ساتھ جنگ لڑی ہے اُن کو عام معافی دی جائے گی، موجودہ فوج اور قومی پولیس کو جن کو بنانے پر امریکہ 39 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہےبرقرار رہنے دیا جائے گا۔
طالبان کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملا عمر بار بار کہہ چکے ہیں کہ طالبان اقتدار پر اجارہ داری نہیں حاصل کرنا چاہتے، بلکہ ملک کو چلانے کے لئے تمام افغانوں کی حکومت کے حامی ہیں۔ کرزئی حکومت کی طرف سے کوئی فوری ردّعمل کا اظہار نہیں ہوا۔ البتہ، ایک سینئر مغربی عہد ہ دار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ لگ رہا ہے کہ طالبان ابھی وہاں نہیں پہنچےجہاں بین الاقوامی برداری چاہتی ہے۔لہٰذا، بہت زیادہ پُرامید ہونا ٹھیک نہیں، کیونکہ یہ مرحلہ دقّت طلب ہوتا ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے افغانستان کے اندر تعلیمی شعبے کی ز بوں حالی پر رونا رویا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ دو قسم کے افغانستان ہیں۔ ایک وہ افغانستان جہاں سرکاری تعلیمی شُعبے کو تحفظ حاصل ہے ، جب کہ دوسرے افغانستان میں یہ تحفظ میسّر نہیں ہے۔
نیٹو کے اعدادو شمار کے مطابق طالبان باغیوں کے اسّی فی صد حملے اُن علاقوں کو نشانہ بناتے ہیں جہاں افغان آبادی کا بیس فیصد حصّہ رہتا ہےاور جہاں لاکھوں بچے رہتے ہیں۔ ملک کے بیشتر جنوبی اور مشرقی علاقوں میں طالبان سکولوں کی عمارتوں کو نذر آتش کرتے ہیں اور طالب علموں کے لئے خطرہ بنتے ہیں۔ افغان عہدہ دار کہتے ہیں کہ امریکہ نے نوے فی صد سکول ایسی جگہوں میں تعمیر کئے جہاں ان کی حفاظت کرنا مشکل ہے۔ ملک میں اس وقت جن 500 سکولوں کی عمارتوں کو بند کر دیا گیاہے اُن میں سے نوے فی صد ملک کے جنوب مشرق میں واقع ہیں۔بالفاظِ دیگر، جِن علاقوں میں سیکیورٹی کا انتظام نہیں وہاں لوگ ان پڑھ رہتے ہیں اور طالبان اُن کو بآسانی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔
باوجودیکہ، طالبان کے دور کے مقابلے میں اس وقت سکولوں میں داخل طلبہ کی تعداد بُہت زیادہ ہے۔ بہت سے اضلاع میں تعلیم کی مخالفت پر قابو پانا ناممکن لگتا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت ، لیکن اب لڑکے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کیونکہ، انہیں بھی حکومت کا ایک حصہ سمجھا جانے لگا ہے اور علیٰ ہذالقیاس مغرب کا بھی جن علاقوں میں طالبان کا زور ہے، اگر کرزئی انتظامیہ وہاں تعلیم کا بندوبست کرتی ہےتو طالبان اسے اپنے لئے کسر شان سمجھتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ افغان عہدہ داروں کو تسلیم ہے کہ چونکہ ملک کے بیشتر علاقوں میں امن و امان کے حالات خراب ہیں۔ ا س لئے آبادی کے ایک بڑے حصّے کوتعلیم دینے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ طالبان غلبے والے علاقوں سے بچوں کو ہٹا کر اُنہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔ جلال آباد سے دس میل دور پشتونستان سکول کے نام سے ایک ایسا ہی سکول قائم ہے جہاں ملک کے مختلف اضلاع سے لائے گئے 350 بچے زیر تعلیم ہیں ۔
ریاست کنٹی کٹ کے نیو ٹاؤن پرائمری سکول میں ہونے والے بچوں کے قتل عام کی واردات کے بعد امریکہ میں بارودی اسلحے کی خریداری اور ملکیت پر قید لگانے کے مطالبے نے پھر زور پکڑ لیا ہے۔ امریکی آئین کی دوسری ترمیم کی رو سے ہر شہری کو اپنے دفاع کے لئے ہتھیار رکھنے کا حق حاصل ہے اور ملک کی سپریم کورٹ نے اس حق کی توثیق کر دی ہے۔
چنانچہ، ’بالٹی مور سن‘ کہتا ہے کہ اگر ملک کی میونسپلٹیاں اور ریاستیں ہتھیاروں کی ملکیت پر کوئی روک لگانے کی کوشش کریں اور اگر اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اخبار کی دانست میں اُن کی یہ کوشش لا حاصل ثابت ہوگی کیونکہ، قابل وکلا کے دلائل اور ججوں کی ذاتی رائے کے باوجود سپریم کورٹ کے ججوں کو ان دلائل کو آئین کی دوسری ترمیم کی روشنی میں پرکھنا ہوگا۔
لیکن، اب اُنہوں نے اعلانیہ نرم لہجہ اختیار کیا ہے اور اُن کے سر کردہ باغی لیڈر اب کہہ رہے ہیں کہ اُن کے شدّت پسند اب دوسرے افغان دھڑوں کے ساتھ مل کر حکومت کرنے پر تیار ہیں، حتیٰ کہ امریکی مالی امداد سے جو فوج تیار ہوئی ہے وُہ اس کو بھی اپنانے کے لئے تیا رہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ حالیہ دنوں میں طالبان کا یہ پیغام اُن کے ایلچیوں نے افغان عہدہ داروں اور افغان حزب اختلاف کے سیاست دانوں تک پیرس کے نزدیک ایک ملاقات کے دوران پہنچا دیا تھا۔
اِن مذاکرات میں شریک ارکان کےحوالے سے اخبار نے بتایا ہے کہ طالبان کے نرم رویّے کی تصدیق اُن طالبان شخصیات نےانٹرویوز میں کی ہے جو اِس تنظیم کے برائے نام لیڈر ملّا عمر کے وفادار ہیں۔
طالبان کی سینئر قیادت نے ایک طرح باقاعدگی کے ساتھ یہ جتا دیا ہے کہ سنہ 2014 میں افغانستان میں نیٹو کا مشن ختم ہو جائے گا، تو وُہ فاتح حکمرانوں کی حیثیت کی بجائے، افغانستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے کا م کرنے کے لئے تیار ہونگے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس وقت طالبان کی اُوپری قیادت میں اقتدار کی جنگ جاری ہے اور اعتدال پسند فوجی کمانڈر ،سخت گیر فوجی کمانڈر ملّا ذاکر کو، جو گوانتانمو کا قیدی رہ چُکا ہے، ہٹانا چاہتے ہیں، تاکہ اس کی جگہ اس کے کسی اعتدال پسندحریف کو مقرر کیا جائے۔ملّا ذاکر کی جگہ سنبھالنے کا ایک امید وار ملا عمر کا نسبتاً اعتدال پسند معاون ملا محمد منصور ہے۔
منگل اور جمعے کو پیرس کے نزدیک اس کانفرنس میں ملا منصور کے دو وفادار ساتھیوں نے طالبان کی نمائندگی کرتے ہوئے پیش کش کی تھی کہ وُہ حکومت کرنے کے لئے پھر تیار ہیں، لیکن موجودہ افغان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اور جن لوگوں نے اُن کے ساتھ جنگ لڑی ہے اُن کو عام معافی دی جائے گی، موجودہ فوج اور قومی پولیس کو جن کو بنانے پر امریکہ 39 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہےبرقرار رہنے دیا جائے گا۔
طالبان کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملا عمر بار بار کہہ چکے ہیں کہ طالبان اقتدار پر اجارہ داری نہیں حاصل کرنا چاہتے، بلکہ ملک کو چلانے کے لئے تمام افغانوں کی حکومت کے حامی ہیں۔ کرزئی حکومت کی طرف سے کوئی فوری ردّعمل کا اظہار نہیں ہوا۔ البتہ، ایک سینئر مغربی عہد ہ دار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ لگ رہا ہے کہ طالبان ابھی وہاں نہیں پہنچےجہاں بین الاقوامی برداری چاہتی ہے۔لہٰذا، بہت زیادہ پُرامید ہونا ٹھیک نہیں، کیونکہ یہ مرحلہ دقّت طلب ہوتا ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے افغانستان کے اندر تعلیمی شعبے کی ز بوں حالی پر رونا رویا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ دو قسم کے افغانستان ہیں۔ ایک وہ افغانستان جہاں سرکاری تعلیمی شُعبے کو تحفظ حاصل ہے ، جب کہ دوسرے افغانستان میں یہ تحفظ میسّر نہیں ہے۔
نیٹو کے اعدادو شمار کے مطابق طالبان باغیوں کے اسّی فی صد حملے اُن علاقوں کو نشانہ بناتے ہیں جہاں افغان آبادی کا بیس فیصد حصّہ رہتا ہےاور جہاں لاکھوں بچے رہتے ہیں۔ ملک کے بیشتر جنوبی اور مشرقی علاقوں میں طالبان سکولوں کی عمارتوں کو نذر آتش کرتے ہیں اور طالب علموں کے لئے خطرہ بنتے ہیں۔ افغان عہدہ دار کہتے ہیں کہ امریکہ نے نوے فی صد سکول ایسی جگہوں میں تعمیر کئے جہاں ان کی حفاظت کرنا مشکل ہے۔ ملک میں اس وقت جن 500 سکولوں کی عمارتوں کو بند کر دیا گیاہے اُن میں سے نوے فی صد ملک کے جنوب مشرق میں واقع ہیں۔بالفاظِ دیگر، جِن علاقوں میں سیکیورٹی کا انتظام نہیں وہاں لوگ ان پڑھ رہتے ہیں اور طالبان اُن کو بآسانی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔
باوجودیکہ، طالبان کے دور کے مقابلے میں اس وقت سکولوں میں داخل طلبہ کی تعداد بُہت زیادہ ہے۔ بہت سے اضلاع میں تعلیم کی مخالفت پر قابو پانا ناممکن لگتا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت ، لیکن اب لڑکے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کیونکہ، انہیں بھی حکومت کا ایک حصہ سمجھا جانے لگا ہے اور علیٰ ہذالقیاس مغرب کا بھی جن علاقوں میں طالبان کا زور ہے، اگر کرزئی انتظامیہ وہاں تعلیم کا بندوبست کرتی ہےتو طالبان اسے اپنے لئے کسر شان سمجھتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ افغان عہدہ داروں کو تسلیم ہے کہ چونکہ ملک کے بیشتر علاقوں میں امن و امان کے حالات خراب ہیں۔ ا س لئے آبادی کے ایک بڑے حصّے کوتعلیم دینے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ طالبان غلبے والے علاقوں سے بچوں کو ہٹا کر اُنہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔ جلال آباد سے دس میل دور پشتونستان سکول کے نام سے ایک ایسا ہی سکول قائم ہے جہاں ملک کے مختلف اضلاع سے لائے گئے 350 بچے زیر تعلیم ہیں ۔
ریاست کنٹی کٹ کے نیو ٹاؤن پرائمری سکول میں ہونے والے بچوں کے قتل عام کی واردات کے بعد امریکہ میں بارودی اسلحے کی خریداری اور ملکیت پر قید لگانے کے مطالبے نے پھر زور پکڑ لیا ہے۔ امریکی آئین کی دوسری ترمیم کی رو سے ہر شہری کو اپنے دفاع کے لئے ہتھیار رکھنے کا حق حاصل ہے اور ملک کی سپریم کورٹ نے اس حق کی توثیق کر دی ہے۔
چنانچہ، ’بالٹی مور سن‘ کہتا ہے کہ اگر ملک کی میونسپلٹیاں اور ریاستیں ہتھیاروں کی ملکیت پر کوئی روک لگانے کی کوشش کریں اور اگر اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اخبار کی دانست میں اُن کی یہ کوشش لا حاصل ثابت ہوگی کیونکہ، قابل وکلا کے دلائل اور ججوں کی ذاتی رائے کے باوجود سپریم کورٹ کے ججوں کو ان دلائل کو آئین کی دوسری ترمیم کی روشنی میں پرکھنا ہوگا۔