افغان حکومت نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے صحافی پر اپنی رپورٹنگ سے متعلق تحقیقات میں تعاون نا کرنے کے الزامات پر انہیں اگلے 24 گھنٹوں میں افغانستان چھوڑنے کا کہا ہے۔
اس بات کا اعلان افغان اٹارنی جنرل کے دفتر نے کیا۔
40 سالہ صحافی میتھیو روزنبرگ کو منگل کو اس وقت طلب کیا گیا جب ان کے ادارے نے ایک خبر چلائی کہ صدارتی انتخابات سے متعلق اگر ڈیڈلاک جاری رہا تو حکام مشاورت کررہے ہیں کہ ایک عبوری حکومت بنا کر ’’اقتدار پر قبضہ‘‘ کر لیا جائے۔
اٹارنی جنرل کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ’’صحیح انداز میں احتساب میں کمی اور عدم تعاون کی وجہ سے، اٹارنی جنرل دفتر نے فیصلہ کیا کہ میتھیو روزنبرگ کو 24 گھنٹوں کے اندر افغانستان چھوڑ دینا چاہیے۔ ’’اسے دوبارہ ملک میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘
غیر ملکی خبررساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق صحافی کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کا اخبار مکمل طور پر تعاون کررہا ہے۔
’’ہم نے صرف وکیل کی درخواست کی تھی جیسا کہ افغان آئین یہ حق دیتا ہے۔ ہمیں کبھی بھی باقاعدہ تحقیقات کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا اور ہمیں نہیں معلوم کہ وکیل تک رسائی کس حد تک عدم تعاون کے دائرے میں آتی ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کا یہ اقدام ’’افغانستان میں آزادی صحافت سے متعلق مناسب نہیں اور اس (فیصلے) کو فوری واپس ہوجانا چاہیے۔‘‘
روزنبرگ کا کہنا تھا کہ ہمیں ’’غیر رسمی گفتگو‘‘ کا بتا کر لے جایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بات چیت شائستہ انداز میں کی گئی لیکن ان کا اصرار تھا کہ ہم انہیں اپنے ذرائع کا نام بتائیں۔‘‘
اٹارنی جنرل دفتر کے ترجمان بصیر عزیزی نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ ’’یہ رپورٹ ہماری قومی سلامتی کے خلاف ہے کیونکہ انتخابات کا مسئلہ ابھی موجود ہے اور مذاکرات ابھی بہت پیچیدہ مرحلے پر ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی نگرانی میں افغانستان میں صدارتی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی جانچ پڑتال ہورہی ہے۔