واشنگٹن —
نیٹو کی قیادت میں قائم 'بین الاقوامی سیکیورٹی اسسٹنس فورس' یا 'ایساف' نے تقریباً دو سال قبل ہی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان نیشنل فورسز کو منتقل کرنا شروع کر دی تھیں اور اتحاد 2014ء کے احتتام تک اس عمل کو ختم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے جب تمام غیر ملکی لڑاکا فوجوں کا افغانستان سے انخلا ہو جائے گا۔
غیر ملکی فوجی اتحاد کے ترجمان بریگیڈیر گنٹر کاٹز نے حال ہی میں صحافیوں سے کہا ہے کہ منتقلی کے عمل میں کامیابی سے پیش رفت جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان فورسز نے حال ہی میں ملک کے 34 میں سے 23 صوبوں میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔
'ایساف' کے ترجمان نے ایسی اطلاعات کو رد کیا کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز طالبان سے نمٹنے کی اہل نہیں ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ افغان فورسز کی کارکردگی میں بہتری آرہی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں انہوں نے آپریشنز کیے ہیں۔
سنہ 2012 میں ایسے واقعات عروج پر تھے جنہیں 'گرین آن بلیو اٹیک' کہا جاتا ہے۔ نیٹو نے کہا ہے کہ گزشتہ برس ایسے 45 حملے ہوئے جن میں کم از کم 61 فوجی ہلاک ہوئے جن میں زیادہ سے زیادہ تعداد امریکی فوجیوں کی ہے۔
طالبان عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے جنگجو افغان فوج اور پولیس میں شامل ہو کر ایسے حملے کرتے ہیں۔ نیٹو حکام نے ایسے دعووں کو رد کیا ہے مگر تسلیم کیا ہے کہ ایسے بہت سے اندرونی حملوں کا تعلق بغاوت سے ہے۔
خیال کیا جا تا ہے کہ یہ حملے افغان فورسز اور غیر ملکی فوجوں کے درمیان اعتماد کے لیے شدید نقصان دہ ہیں لیکن نیٹو حکام نے کہا ہے کہ یہ حملے 2014ء میں انخلا کے منصوبوں کے لیے خطرہ نہیں۔
افغانستان میں 2014ء کے بعد بھی کچھ امریکی فوجیوں کی موجودگی پر باغی گروپ - جن میں مفرور افغان جنگی سردار گل بدین حکمت یار کی قیادت میں قائم حزب اسلامی بھی شامل ہے - 2014ء کے بعد ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی مخالفت کرتے ہیں۔
صدر حامد کرزئی کی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ طالبان، حزب اسلامی اور دیگر باغی گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ تشدد ترک کرکے سیاسی مفاہمتی عمل میں شامل ہوں اور نیٹو فورسز کے منظم انخلا میں مدد کریں۔
لیکن بعض گروپوں کا کہنا ہے کہ مصالحتی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک غیر ملکی فوجیں 2014ء تک افغانستان سے نکل نہیں جاتیں۔
غیر ملکی فوجی اتحاد کے ترجمان بریگیڈیر گنٹر کاٹز نے حال ہی میں صحافیوں سے کہا ہے کہ منتقلی کے عمل میں کامیابی سے پیش رفت جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان فورسز نے حال ہی میں ملک کے 34 میں سے 23 صوبوں میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔
'ایساف' کے ترجمان نے ایسی اطلاعات کو رد کیا کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز طالبان سے نمٹنے کی اہل نہیں ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ افغان فورسز کی کارکردگی میں بہتری آرہی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں انہوں نے آپریشنز کیے ہیں۔
سنہ 2012 میں ایسے واقعات عروج پر تھے جنہیں 'گرین آن بلیو اٹیک' کہا جاتا ہے۔ نیٹو نے کہا ہے کہ گزشتہ برس ایسے 45 حملے ہوئے جن میں کم از کم 61 فوجی ہلاک ہوئے جن میں زیادہ سے زیادہ تعداد امریکی فوجیوں کی ہے۔
طالبان عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے جنگجو افغان فوج اور پولیس میں شامل ہو کر ایسے حملے کرتے ہیں۔ نیٹو حکام نے ایسے دعووں کو رد کیا ہے مگر تسلیم کیا ہے کہ ایسے بہت سے اندرونی حملوں کا تعلق بغاوت سے ہے۔
خیال کیا جا تا ہے کہ یہ حملے افغان فورسز اور غیر ملکی فوجوں کے درمیان اعتماد کے لیے شدید نقصان دہ ہیں لیکن نیٹو حکام نے کہا ہے کہ یہ حملے 2014ء میں انخلا کے منصوبوں کے لیے خطرہ نہیں۔
افغانستان میں 2014ء کے بعد بھی کچھ امریکی فوجیوں کی موجودگی پر باغی گروپ - جن میں مفرور افغان جنگی سردار گل بدین حکمت یار کی قیادت میں قائم حزب اسلامی بھی شامل ہے - 2014ء کے بعد ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی مخالفت کرتے ہیں۔
صدر حامد کرزئی کی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ طالبان، حزب اسلامی اور دیگر باغی گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ تشدد ترک کرکے سیاسی مفاہمتی عمل میں شامل ہوں اور نیٹو فورسز کے منظم انخلا میں مدد کریں۔
لیکن بعض گروپوں کا کہنا ہے کہ مصالحتی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک غیر ملکی فوجیں 2014ء تک افغانستان سے نکل نہیں جاتیں۔