ہفتے کے روز افغانستان کی حکومت نے بتایا ہے کہ اس کی فوجوں نے شمال مشرق میں واقع ایک ضلع کو پانچ سال بعد طالبان سے واپس لے لیا ہے۔ اس کارروائی میں دونوں جانب سے سخت مزاحمت کا مظاہرہ کیا گیا اور فریقین کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
افغان کی وزارت دفاع نے اعلان میں کہا گیا ہے کہ بدخشاں صوبے کے ضلع وردوج کا قبضہ واپس لینے کے سلسلے میں ہونے والی کارروائی میں کم از کم سو سے زیادہ طالبان عسکریت پسند ہلاک ہو ئے۔
یہ علاقہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس کی سرحدیں پاکستان چین اور تاجکستان سے ملتی ہیں۔
افغان وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ ان جھڑپوں کے دوران ہلاک ہونے والوں میں علاقے کے لیے طالبان کے متبادل گورنر قاری فصیح الدین بھی شامل ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حکومتی دعوؤں کی تردید کی ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں لڑائی ابھی جاری ہے اور حکومت کی جانب سے فصیح الدین کی ہلاکت کا دعویٰ محض پراپیگنڈہ ہے۔
امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر دونوں فریقوں کے دعوؤں کی تصدیق آزاد ذرائع سے کرنا ممکن ہیں ہیں۔
اسی دوران طالبان قریبی صوبوں قندوز، بغلان اور تخار میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جس دوران سرکاری فورسز کے کئی اہل کاروں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔
طالبان کے ترجمان مجاہد نے ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے قندھار کے ضلع قلعہ زال پر قبضہ کر لیا ہے جب کہ ایک روز قبل انہوں نے ضلع خندآباد کو فتح کیا تھا۔
ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی دنوں کے مسلسل محاصرے کے بعد ان کے جنگجوؤں نے صوبہ بغلان کے صدر مقام پل خمری کے اندر پیش قدمی کی ہے۔
سرکاری عہدے داروں نے ابھی تک طالبان کے دعوؤں کی تردید یا تصدیق نہیں کی۔
ایک اور خبر کے مطابق ایران کی سرحد کے ساتھ واقع مغربی افغان صوبے فرح میں شدید لڑائیاں ہو رہی ہیں جس کے متعلق افغان عہدے داروں اور طالبان دونوں نے ہی صوبائی دارالحکومت میں اپنی کامیابیوں کے متضاد دعوے کیے ہیں۔
افغانستان کے مختلف علاقوں میں یہ لڑائیاں ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کاروں نے دوحہ میں امن مذاکرات کے نویں مرحلے میں معاہدے کے ایک ابتدائی مسودے پر اتفاق کیا ہے جس کے لیے اب صدر ٹرمپ کی منظوری درکار ہے۔