افغانستان میں طالبان نے قندوز کے بعد ایک اور شہر 'پل خمری' پر حملہ کر دیا ہے۔
صوبہ بغلان کی پولیس کے سربراہ نے صوبائی دارالحکومت پر طالبان کے بڑے حملے کی تصدیق کی ہے۔
'ریڈیو فری یورپ' کی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی نے کہا ہے کہ طالبان نے دو اطراف سے 'پل خمری' شہر کو نشانہ بنایا ہے۔ سکیورٹی فورسز اور جنگجوؤں میں شدید لڑائی جاری ہے۔
بغلان کی صوبائی کونسل کے سربراہ صفدر محسنی نے بتایا ہے کہ پورا شہر بند ہو گیا ہے۔
صفدر محسنی نے مزید کہا کہ اگر مرکزی حکومت نے فوری طور پر اقدامات نہ کیے تو صورت حال انتہائی خراب ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ طالبان نے گزشتہ روز افغانستان کے شمالی شہر قندوز پر کئی اطراف سے حملہ کیا تھا۔ حکام نے یہ حملہ پسپا کرنے اور 35 سے زائد جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
قطر کے نیوز چینل 'الجزیرہ' کی رپورٹ کے مطابق قندوز میں ایک روز لڑائی کے بعد سرکاری فورسز نے شہر میں اہم مقامات پر چوکیاں بنا لی ہیں جبکہ وزارت داخلہ دعویٰ کر رہی ہے کہ قندوز کو طالبان سے محفوظ بنا لیا گیا ہے البتہ بعض جنگجو صوبہ بغلان کی جانب فرار ہوئے ہیں۔
قندوز پر گزشتہ کچھ سالوں میں طالبان کا یہ تیسرا بڑا حملہ تھا تاہم اس بار بھی طالبان شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق صوبہ بغلان کی کونسل کے سربراہ صفدر محسنی کا کہنا تھا کہ پل خمری شہر کے اطراف میں دھماکوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگجو رہائشی علاقوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس لیے مزید فورسز کی ضرورت ہے۔ اگر طالبان شہر میں داخل ہو گئے تو ان کو نکالنا مشکل ہو جائے گا۔
خیال رہے کہ صوبہ بغلان کے مرکزی شہر 'پل خمری' کی آبادی 2لاکھ سے زائد ہے جبکہ یہ دارالحکومت کابل سے 230 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
دو روز میں دو بڑے شہروں پر حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب طالبان اور امریکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس معاہدے سے افغانستان میں تشدد میں کمی اور بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو گی۔
اپنی ٹوئٹ میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ امن معاہدے سے افغانستان میں تشدد کم ہو گا۔ اس سے ایک ایسا خود مختار افغانستان سامنے آئے گا جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں یا کسی اور ملک کے خلاف اپنی زمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔
امریکہ کا یہ موقف رہا ہے کہ طالبان کو افغانستان میں پر تشدد کارروائیاں ختم کرنا ہوں گی تاہم طالبان یہ اصرار کرتے ہیں کہ جب تک امریکی فوج افغانستان سے نکل نہیں جاتی اس وقت تک کارروائیاں جاری رہیں گی۔
خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان میں مذاکرات کے نو ادوار ہو چکے ہیں۔ مذاکرات کے حالیہ دور کے اختتام پر یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان میں موجود 14 ہزار غیر ملکی فوجیوں کا مکمل انخلا ممکن ہو سکے گا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بیان کچھ روز قبل سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے وہ 8 ہزار سے زائد فوجی افغانستان میں تعینات رکھیں گے۔
یہ رپورٹس بھی آ چکی ہیں کہ امریکہ سے امن معاہدے کے بعد ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں طالبان کے افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات ہوں گے تاہم طالبان یا کابل حکومت کی جانب سے تاحال اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔