پچھلے چند ہفتوں کے دوران اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) نے گلوبل فنڈ کے ساتھ خاموشی سے ایک معاہدہ کیا اور افغانستان کے طبی عملے کے لیے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی رقم مہیا کر دی۔ افغانستان کے طبی نظام سے وابستہ افراد کے لیے یہ ایک طرح کی غیبی امداد تھی، کیونکہ مہینوں سے انہیں تنخواہ نہیں ملی تھی اور اسپتالوں کو مزید چلانا تقریباً ناممکن ہو گیا تھا۔ افغانستان کا صحت کا نظام مکمل تباہ ہونے سے فی الحال بچ گیا۔
طالبان نے جب وسط اگست میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا اس وقت ملک کے وسطی شہر میدان شار کے سب سے بڑے اسپتال کے اکثر اسٹاف کو مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ ادویات سمیت ضروری سامان کی قلت بڑھتی جا رہی تھی ۔ ہر قسم کی عالمی امداد رک گئی تھی۔ حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے تھے۔
اور اسی دوران ایک مڈ وائف نے 'یو این نیوز' کو بتایا کہ امداد تقسیم ہونا شروع ہو گئی ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ کے ایک پس پردہ معاہدے نے امید کی کرن روشن کر دی ہے۔ اس خاتون نے بتایا کہ ہم اب مریضوں کی زندگی بچا سکتے ہیں اور اسپتال آنے والی پانچ سو خواتین اور بچوں کو طبی امداد فراہم کر سکتے ہیں۔
یہ مڈ وائف 23 ہزار طبی عملے میں سے ایک ہیں جو ملک کے 31 صوبوں کے تقریباً دو ہزار دو سو صحت کے مراکز میں کام کرتا ہے۔ اس اسکیم کے شروع ہوتے ہی انہیں تنخواہیں ملنے لگیں اور صحت کے مراکز میں ضروری سامان بھی فراہم کیا جانے لگا۔
'یو این نیوز' کو افغانستان میں مقیم UNDP کی نائب ریزیڈینٹ نمائندہ سورایو بزورو کووا نے بتایا کہ ان کے ادارے نے افغانستان کے صحت کے نظام کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے زبردست کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہر چند اس سے سارے مسائل تو حل نہیں ہوں گے، تاہم ہم نے افغان عوام کے دلوں میں امید کی شمع ضرور روشن کر دی ہے اور یہ باور کرایا کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا ہے''۔
UNDP کے مطابق اس مالی امداد سے قبل صحت کے مراکز بمشکل 20 فی صد کام کر رہے تھے۔ بزورو کووا نے اس بارے یہ بھی بتایا کہ 16 سول سوسائٹی کے اداروں پر مشتمل ایک گروپ کی مدد سے ان ہیلتھ کیئر ورکرز کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں تنخواہ دی گئی۔ یہ گروپ عالمی بینک کے پراجیکٹ کے لیے کام کرتا ہے اور اس کا نام ہی 'صحت مندی' ہے۔
بقول ان کے، ''90 فی صد سے زیادہ طبی عملے کی تنخواہیں براہ راست ان کے بینک اکاؤنٹ میں بھیجی جا رہی ہیں۔ دور دراز علاقوں کے جن ملازمین کے بینک اکاؤنٹ نہیں ہیں انہیں نقد ادائیگی کی جارہی ہے۔ ابھی تقریباً 25 ہزار طبی عملے کو تنخواہ نہیں ملی ہے، مگر جمعرات تک ان کو بھی تنخواہ مل جائے گی''۔
بزورو کووا نے 'یو این نیوز' کو بتایا کہ ان کی ایجنسی عالمی ادارہ صحت اور یو این چلڈرن فنڈ (UNICEF) کے ساتھ قریبی رابطے میں رہتی ہے۔
طبی عملے میں شامل نرسوں، ویکسینیٹرز، انتظامی اور ٹیکنیکل سٹاف کی اوسطاً تنخواہ ڈیڑھ سو ڈالر ماہانہ ہے جب کہ ڈاکٹروں کی تنخواہ سات سو ڈالر کے قریب بنتی ہے۔
اس وقت سرکاری محکموں میں کام کرنے والے تقریباً آٹھ لاکھ افراد کو مہینوں سے کوئی تنخواہ نہیں ملی۔ یہ پراجیکٹ ان لوگوں کی تنخواہ واگزار کرانے کے لیے بھی کوشاں ہے۔
طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد غیر ملکی امداد کے اچانک بند ہو جانے سے پورا ملک خطرے میں پڑ گیا ہے۔
بین الاقوامی ادارے اور چند ممالک جو امداد دے رہے ہیں، وہ طالبان کے ساتھ کام کرنے سے بدستور گریزاں ہیں۔
اکتوبر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے عالمی برادری سے کہا تھا کہ وہ اس ملک کی معشیت کی نبض چلانے کے لیے راستے تلاش کریں۔ گوئیٹرس کا خیال ہے کہ بین الاقوامی قوانین کو توڑے اور اصولوں سے سمجھوتہ کیے بغیر بھی کچھ نہ کچھ کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے کچھ کرنا ہو گا جن سے افغان آبادی کے لیے خدمات انجام دینے والے سرکاری ملازمین اپنا کام جاری رکھ سکیں۔
اسی تناظر میں اب اقوام متحدہ کے ادارے UNDP نے یہ ممکن بنایا ہے کہ عارضی طور پر سہی، مگر کچھ بہتری کی جانب بڑھنے کا عمل شروع ہوا ہے۔
بزورو کووا کے بقول، ''ہم ان حکام سے رجوع نہیں کر رہے ہیں جنہیں اب تک بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا۔ اسی لیے ہم ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت طبی عملے کو براہ راست تنخواہیں دے رہے ہیں''۔
[اس خبر کا مواد اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر شائع رپورٹ سے لیا گیا ہے]