اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ سال ہلاک و زخمی ہونے والی خواتین کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے آیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہاں کی روایات و ثقافت کو قرار دیا گیا ہے۔
عالمی ادارے کے مطابق گزشتہ برس کئی سالوں میں پہلی بار شہری ہلاکتوں میں تو بحیثیت مجموعی کمی دیکھنے میں آئی لیکن 2012ء میں 300 سے زائد لڑکیاں اور خواتین ہلاک اور 560 سے زائد زخمی ہوئیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان جان کوبس نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ ان ہلاکتوں میں اکثریت کی وجوہات گھریلو تشدد، روایات اور ملک کی ثقافت سے وابستہ ہیں۔
’’عسکریت پسندوں کی طرف سے واضح طور پر خواتین کو نشانہ بنایا اور پھر ایسے بدقسمت واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں خواتین اپنے گھر کےکام کاج کے دوران ہلاک ہوئیں۔‘‘
مغرب میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان یہ کہتے آئے ہیں کہ خواتین کے حقوق اکثر روایات کا سہارا لے کر پامال کیے جاتے ہیں جن میں غیرت کے نام پر قتل اور ناجائز تعلقات کے الزامات شامل ہیں۔
افغانستان کو ایک قدامت پسند مسلمان تصور کیا جاتا ہے جہاں 1996ء سے 2001ء تک طالبان کے دور حکومت میں خواتین پر سخت ترین پابندیاں عائد تھیں۔ اس دور میں خواتین کو ووٹ ڈالنے اور باہر کام کرنے کی ممانعت تھی جب کہ انھیں سرتا پا خود کو ڈھانپ کے رہنے، اپنے شوہر یا مرد رشتے دار کے علاوہ باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 2001ء میں افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کو ختم کیا تھا لیکن 2014ء میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کے تناظر میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خصوصاً تحفظ حقوق نسواں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور بعض قانون سازوں نے خواتین کے خلاف تشدد میں اضافے کا ذمہ صدر حامد کرزئی کی حکومت کی جانب سے حقوق نسواں کے ضمن میں عدم دلچسپی کو قرار دیا ہے لیکن صدر کرزئی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مشن برائے افغانستان نے گزشتہ دسمبر میں کہا تھا کہ اس ملک کو خواتین کے خلاف تشدد کے 2009ء کے قانون پر عمل درآمد کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس قانون کے تحت کم عمری کی شادی، زبردستی کی شادی،جنسی زیادتی اور ایسے دیگر افعال کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا تھا۔
خصوصی ایلچی جان کوبس نے ایک روز قبل کہا تھا ’’ہم ملک میں ایسے طریقوں کی ترویج اور وکالت کریں گے جو کہ درحقیقت ثقافت کے زیادہ قریب ہوں گے اور روایات سے جڑے ہوں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کی صورتحال باعث تشویش ہے اور رہے گی۔
عالمی ادارے کے مطابق گزشتہ برس کئی سالوں میں پہلی بار شہری ہلاکتوں میں تو بحیثیت مجموعی کمی دیکھنے میں آئی لیکن 2012ء میں 300 سے زائد لڑکیاں اور خواتین ہلاک اور 560 سے زائد زخمی ہوئیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان جان کوبس نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ ان ہلاکتوں میں اکثریت کی وجوہات گھریلو تشدد، روایات اور ملک کی ثقافت سے وابستہ ہیں۔
’’عسکریت پسندوں کی طرف سے واضح طور پر خواتین کو نشانہ بنایا اور پھر ایسے بدقسمت واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں خواتین اپنے گھر کےکام کاج کے دوران ہلاک ہوئیں۔‘‘
مغرب میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان یہ کہتے آئے ہیں کہ خواتین کے حقوق اکثر روایات کا سہارا لے کر پامال کیے جاتے ہیں جن میں غیرت کے نام پر قتل اور ناجائز تعلقات کے الزامات شامل ہیں۔
افغانستان کو ایک قدامت پسند مسلمان تصور کیا جاتا ہے جہاں 1996ء سے 2001ء تک طالبان کے دور حکومت میں خواتین پر سخت ترین پابندیاں عائد تھیں۔ اس دور میں خواتین کو ووٹ ڈالنے اور باہر کام کرنے کی ممانعت تھی جب کہ انھیں سرتا پا خود کو ڈھانپ کے رہنے، اپنے شوہر یا مرد رشتے دار کے علاوہ باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 2001ء میں افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کو ختم کیا تھا لیکن 2014ء میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کے تناظر میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خصوصاً تحفظ حقوق نسواں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور بعض قانون سازوں نے خواتین کے خلاف تشدد میں اضافے کا ذمہ صدر حامد کرزئی کی حکومت کی جانب سے حقوق نسواں کے ضمن میں عدم دلچسپی کو قرار دیا ہے لیکن صدر کرزئی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مشن برائے افغانستان نے گزشتہ دسمبر میں کہا تھا کہ اس ملک کو خواتین کے خلاف تشدد کے 2009ء کے قانون پر عمل درآمد کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس قانون کے تحت کم عمری کی شادی، زبردستی کی شادی،جنسی زیادتی اور ایسے دیگر افعال کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا تھا۔
خصوصی ایلچی جان کوبس نے ایک روز قبل کہا تھا ’’ہم ملک میں ایسے طریقوں کی ترویج اور وکالت کریں گے جو کہ درحقیقت ثقافت کے زیادہ قریب ہوں گے اور روایات سے جڑے ہوں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کی صورتحال باعث تشویش ہے اور رہے گی۔