’واشنگٹن پوسٹ‘ کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے لوگ بالعموم اپنے مستقبل کے بارے میں پُر امّید ہیں۔ 59 فی صد افغانوں کاخیال ہے کہ اُن کا ملک صحیح سمت میںجا رہا ہے۔ نومبر میں کئے جانے والے استصواب کے مقابلے میں یہ تناسُب سب سے زیادہ ہے۔
اخبار کہتا ہے: ’ یہاں امریکہ میں صدر کرزئی پر رشوت ستانی کا الزم لگایا جاتا ہے۔ لیکن اپنے ملک میں 62 فی صد لوگ اُنہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جبکہ 82 فی صد افغان کی مسٹر کرزئی کے بارے میں مثبت رائے ہے۔‘
اِس استصواب کے مطابق 10 میں سے9 افغانوں کی طالبان کے بارے میں اچھی رائے نہیں ہے، جبکہ 10 میں سے 8 افغانوں کو اپنی قومی فوج پر اعتماد ہے۔
اِس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ 2001 ءمیں امریکی فوجوں کے ہاتھوں طالبان کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد سےملک کی مجموعی قومی پیداوار میں تین گُنا اضافہ ہو گیا ہے۔ 2001 ءمیں افغانستان میں زیرِ تعلیم بچوں کی تعداد دس لاکھ تھی جِن میں تقریباًٍ سب لڑکے تھے۔اب یہ تعداد بڑھ کر 80 ،لاکھ تک پہنچ گئی ہےجِن میں سے ایک تہائی لڑکیاں ہیں۔ اس وقت 80 فی صد افغانوں کو صحت کی نگہداشت کی سہولتوں تک رسائی حاصل ہے۔ بچوں کی شرح اموات کم ہو رہی ہے اور بالغ اب زیادہ لمبی عُمر پا رہے رہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سیل فونوں کی ترویج کے نتیجے میں نصف افغان خاندانوں کے پاس ٹیلیفون ہیں، جب کہ دس سال قبل کسی کے پاس فون نہیں تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس استصواب سےتصدیق ہو گئی ہے کہ افغان، حکومت میں بدعنوانیوں اور رشوت ستانی پر بُہت برہم ہیں۔ لیکن وہ اپنی حکومت کا موازنہ سوٕٹزرلینڈ سے نہیں کرتے۔ جب وُہ اپنے پڑوسی ملکوں پر نظر ڈالتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ افغانستان کے مقابلے میں ان ملکوں میں احتساب کا کہیں زیادہ فُقدان ہے۔
مجموعی طور پر جب وُہ اپنے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو اُنہیں محسوس ہوتا ہے کہ کئی عشروں کے بعد اُن کے موجُودہ حالت بہترین ہےاور حالات میں مزید بہتری آ رہی ہے۔ استصواب میں اِس سوال کے جواب میں کہ آیا 5 سال قبل کے مقابلے میں اُن کے حالات بہتر ہیں تو 63 فی صد افغانوں کا جواب ہاں میں تھا۔