افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی مندوب، رچرڈ ہالبروک نے وکی لیکس ویب سائٹ پر امریکی فوج کے ہزاروں خفیہ کاغذات کے افشا کیے جانے کی مذمت میں صدر اوباما اور امریکی عہد ے داروں کا ساتھ دیا۔ انھوں نے کہا’’میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جو لوگ امریکہ میں اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہیں، وہ اتنی دیدہ دلیری سے اس کی خلاف ورزی کیسے کر سکتے ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ہالبروک نے دوسرے لوگوں کی طرح اس بات پر زور دیا کہ ان کاغذات کے افشا ہونے سے کوئی نئے انکشافات نہیں ہوئے۔اوباما انتظامیہ کو ان کاغذات کے بارے میں تشویش ہے جن میں اشارتاً یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس سروس طالبان کی مدد کر رہی ہے۔
ایوانِ نمائندگان کی اپروپری ایشنز کمیٹی میں افغانستان میں امریکہ کے سویلین آپریشنز کے بارے میں ریاست نیو جرسی کے ڈیموکریٹک رکن اسٹیون روتھمن نے، ہالبروک سے ان الزامات کے بارے میں پوچھا کہ پاکستان ایک طرف امریکہ اور بین الاقوامی فورسز کی اور دوسری طرف افغانستان میں طالبان کی مدد کر رہا ہے۔ کیا پاکستان دہرا کھیل کھیل رہا ہے؟ ہالبروک نے جواب دیا کہ ہم پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس سروس کے ساتھ انتہائی اہم مذاکرات میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں یقیناً پیشرفت بھی ہوئی ہے لیکن وہ کافی نہیں ہے ۔
سماعت کے دوران، ہالبروک اور امریکہ کی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی، یو ایس ایڈ ، کے ایڈمنسٹریٹرراجیو شاہ سے ، افغانستان میں سیاسی کرپشن اور ٹیکس ادا کرنے والے امریکیوں کے پیسے کے خرچ کے بارے میں متعدد سوالات پوچھے ۔ ہالبروک نے ایوان ِ نمائندگا ن کے پینل کو یاد دلایا کہ امریکہ ، افغانستان میں کیوں ہے ۔ انھوں نے کہا’’میں نائن الیون کی تفصیل میں جا کر وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا لیکن ہماری وہاں موجودگی کی وجہ وہی واقعہ ہے ۔اگر ہم پر11 ستمبر، 2001 میں حملہ نہ کیا گیا ہوتا، تو ہم دنیا کے سب سے دور دراز اور مشکل علاقے میں جنگ نہ کر رہے ہوتے۔‘‘
ایوانِ نمائندگان میں ورجینیا کے رکن جیمز موران نے سفیر ہالبروک سے کہا کہ وہ ان بہت سے ڈیموکریٹس میں شامل ہیں جنھوں نے ابتدا میں افغانستان میں جنگ کی کوششوں کی حمایت کی تھی، لیکن منگل کے روز انھوں نے امریکی فوجوں کے لیے امرجنسی فنڈنگ کے خلاف ووٹ دیا ہے۔وہ کہتے ہیں’’آپ نے ہمارے سامنے جو حقائق بیان کیے ہیں، مجھے ان سے اختلاف نہیں ہے ۔ لیکن آپ نے ان سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے، مجھے اس سے اختلاف ہے ۔ اس مشن کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں، میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ اور اسی لیے کل میں نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔‘‘
اس ہفتے کے ووٹ سے ظاہر ہوا کہ اس جنگ کے سوال پر ڈیموکریٹک پارٹی میں اختلافات کتنے شدید ہیں۔ 100 سے زیادہ ڈیموکریٹس نے مزید امریکی فوجیں افغانستان بھیجنے کے لیے امرجنسی فنڈنگ کے خلاف ووٹ دیا۔ صدر اوباما نے مزید فوجوں کی درخواست فروری میں کی تھی۔
ایوانِ نمائندگان کی اپروپری ایشن کمیٹی کے چیئر مین ڈیوڈ اوبے نے کہا کہ وہ فنڈنگ کے مسودہ قانون کو ووٹنگ کے لیے پیش کرنے پر مجبور ہیں لیکن وہ خود کو اس کے حق میں ووٹ دینے کے لیے آمادہ نہیں کر سکے۔’’فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ایسے حالات قائم کرنے میں، جو ہمیں قابلِ قبول ہوں، مزید دس سال لگ سکتے ہیں۔ ہم وہاں پہلے ہی نو سال صرف کر چکے ہیں۔ میرے خیال میں یہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ قیمت ادا کردینی چاہیئے کیوں کہ ہم القاعدہ کا تعاقب کر رہے ہیں، میں ان سے کہوں گا کہ افغانستان وہ جگہ ہے جہاں پہلے کبھی القاعدہ کی تنظیم ہوا کرتی تھی۔‘‘
جنگ کی حمایت میں بولنے کا کام ریپبلیکنز کے حصے میں آیا۔ ایوانِ نمائندگان میں ریاست کیلے فورنیا کے رکن جیری لوئس نے کہا’’کانگریس کے رکن کے حیثیت سے ہمارا پہلا کام اپنی فوجوں کی مدد کرنا ہے، یہ وہ مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے ہمارے ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں خطرے میں ڈالی ہوئی ہیں۔ صدر کو اضافی فنڈز کی درخواست کانگریس کو بھیجے ہوئے چھ مہینے ہو چکے ہیں۔‘‘
جنگ کے لیے مزید فنڈز کی درخواست کے حق میں 308 اور اس کے خلاف 114 ووٹ آئے۔صر ف12 ریپبلیکنز نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔