افریقی ملک کیمرون میں حکام کا کہنا ہے کہ چار سال بعد باغیوں کے علاقے میں اسکولوں کو وبارہ کھولا گیا تھا، مگر ناکافی سیکیورٹی کے باعث یہ دوبارہ خالی ہو رہے ہیں۔
کیمرون میں سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ایک ویڈیو میں، ملک کے جنوب مغرب میں واقع قصبے لمبے میں قائم کولو میموریل کالج میں سات مسلح باغیوں کو اساتذہ کو کپڑے اتارنے کاحکم دیتے دکھایا گیا ہے۔
ویڈیو میں طالب علموں کو روتے ہوئے مدد کیلئے پکارتے دِکھایا گیا ہے جب کہ اساتذہ کی تذلیل کر کے انہیں اسکول بند کرنے اور وہاں سے جانے کا کہا جا رہا ہے۔
کمیرون کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ بدھ کے روز اسکول پر حملہ کیا گیا۔
لمبے کے ایک ٹیچر لیزلے ٹیبوٹ نے اس وقت تک پڑھانے سے انکار کر دیا ہے جب تک حکومت اسکولوں کو تحفظ فراہم کرنے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کرتی۔
لیزلے کہتے ہیں کہ حکومت نے والدین اور اساتذہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ملک کے شمال مغربی اور جنوب مغربی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ سیکیورٹی فراہم کر دی گئی ہے تاکہ اسکول سکون سے چلتے رہیں۔ مگر ہر روز کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔ طالب علموں پر جا بجا حملے ہوتے رہتے ہیں اساتذہ کی بھی تذلیل کی جاتی ہے۔
کیمرون میں اینگلو فون باغی سن 2017 سے انگریزی بولنے والوں کیلئے ایک الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو کہ اکثریتی فرانسیسی بولنے والوں سے الگ ہو۔
گزشتہ ماہ، کیمرون کے شمال مغرب اور جنوب مغربی علاقوں میں چار برس تک بند رہنے والے اسکولوں کو اس وقت کھول دیا گیا تھا جب کیمرون کی حکومت نے کہا تھا کہ یہ علاقے محفوظ ہیں۔
تاہم ملک کی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران، باغیوں نے کم ازکم چھ اساتذہ اور سات بچوں کو اغوا کر لیا ہے، اور اسسے پہلے 23 اساتذہ کو اغوا کیا گیا اور تین اسکولوں کو آگ لگا دی گئی۔
کیمرون میں شمال مغربی علاقے کے گورنر ڈیبن ٹے شوفو کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں دوبارہ کھولے جانے والے اسکولوں میں سے 20 کو ایک بار پھر بند کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ دیگر اسکولوں میں زیر تعلیم ہزاروں بچے اور ان کے اساتذہ خوف کی وجہ سے اسکول نہیں جا رہے حالانکہ ان علاقوں میں فوجی دستے تعینات کئے گئے ہیں۔
علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ ان علاقوں میں اسکول اس وقت تک بند رکھے جائیں، جب تک کہ حکومت وہاں سے اپنی فوج واپس نہیں بلاتی، جنہیں باغی اپنا علاقہ قرار دیتے ہیں۔
ایک پرائیویٹ اسکول پر ہونے والے حملے کو قتلِ عام اور بچوں پر اِن تنازعات کے برے اثرات قرار دے کر عالمی سطح پر اس کی سخت مذمت کی گئی۔