رسائی کے لنکس

افریقہ میں جنگلی حیات کے پارکوں کوموسمیاتی تبدیلی اور انفرا اسٹرکچر سے خطرات لاحق


فائل۔
فائل۔

افریقہ کے نیشنل پارکس ، جہاں شیر ، ہاتھی اور بھینسوں جیسی ہزاروں قسم کی جنگلی حیات موجود ہیں , اوسط سے کم بارشوں اور بنیادی ڈھانچے کے نئے منصوبوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے خطرا ت کی زد میں ہیں ۔

ماحولیات کے کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ براعظم کے مشرق کے بیشتر حصوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی طویل خشک سالی، اور تیل کی کھدائی اور مویشیوں کے چرانے سمیت بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلیاںمحفوظ علاقوں میں تحفظ کی کوششوں کو متاثر کر رہی ہیں ۔

خطرے سے دوچار پارکس مشرق میں کینیا سے لے کر پورے راستے تک پھیلے ہوئے ہیں جہاں سیوو ، اور نیروبی نیشنل پارکس ہیں جنوب میں تنزانیہ کے کومیزی ، اور سیرنگیٹی پارکس ، موزنبیق میں کیری امبرس ، اور گورنگوسا پارکس اور جنوبی افریقہ کا مشہور کروگر نیشنل پارک ، اور کانگو میں کہوزی بیگا سالونگا ا ور ورونگا کے قدرتی ذخائر شامل ہیں۔

پارک نہ صرف نباتات اور حیوانات کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ ہوا میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا میں قدرتی طور پر ذخیرہ کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں اور گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرتے ہیں۔

برڈ لائف انٹرنیشنل کے کین واتھ کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق افریقہ کے حیاتیاتی تنوع والے 38 فیصد علاقوں کو آب وہوا کی تبدیلی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے شدید خطرہ لاحق ہے۔

واتھ نے کہا ہے ، "گزشتہ برسوں میں حیاتیاتی تنوع کے اہم علاقوں کو، خاص طور پر افریقہ میں، سرمایہ کاروں کی طرف سے بیکار اور ترقی کے لیے تیار سمجھا جاتا ہے۔"حکومتیں ان علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے زمین مختص کرتی ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ " بجلی کی تاریں اور توانائی کے دوسرے انفراسٹرکچر واضح طور پر دکھائی نہ دینے کی وجہ سے پرندوں کے ان سے ٹکرانے کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرح مارے جانے والے جانداروں کی تعداد کم نہیں ہے۔‘‘

بوٹسوانا میں ہاتھیوں کا ایک گلہ وائلڈ لاِئف علاقے میں : فاِئل فوٹو
بوٹسوانا میں ہاتھیوں کا ایک گلہ وائلڈ لاِئف علاقے میں : فاِئل فوٹو

افریقی حکومتوں نے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور پائیدار ترقیاتی اہداف ، مثلاً صاف پانی اور خوراک تک رسائی، ملازمتوں اور معاشی نمو کے فروغ اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنا نے کی کوشش میں ، بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، جن میں سے بہت سوں کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی طرف سے فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں ، خاص طور پر چین کی طرف سے۔

مثال کے طور پر مشرقی افریقی تیل کی مجوزہ پائپ لائن سےجس کے بارے میں یوگنڈا کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد مل سکتی ہے، یوگنڈا کی کِڈیپو وادی، مرچیسن آبشار اور ونڈی کے گھمبیر جنگل سے گزرتی ہے، اس سےجنگلی حیات کو خطرہ لاحق ہے اور اسے آب و ہوا کے علمبرداروں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

قدرتی وسائل کے تحفظ کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ شہری آبادیوں میں اضافے اور اس کے ساتھ ہونے والی تعمیرات ،مثلاًنئی سڑکوں، بجلی کے گرڈ، گیس کےپائپ، بندرگاہوں اور ریلوےسسٹمزنے بھی پارکوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔لیکن وہ مزید کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کو انفراسٹرکچر سے تبدیل کرنا معاشی ترقی کے لیے غلط طریقہ ہے۔

تنزانیہ میں ہنی گائیڈ فاؤنڈیشن کے پروگرام مینیجر سام شابا نے کہا، "ہمیں ایک ایسا مستقبل بنانا ہے جہاں جنگلی حیات لوگوں سے الگ نہ ہو۔" ان کا مزید کہنا ہے ،جب "لوگ یہ سمجھنا شروع کر دیں کہ پائیدار ترقی کے لئے جنگلی حیات کے ساتھ رہنا ضروری ہے تو یہ سوچ صورتحال کو نمایاں طور پر بہتری کی طرف گامزن کردے گی ۔

کمبوڈیا کے انگکور پارک میں جنگلی حیات کے تحفظ کےایک پروگرام پر عمل درآمد ہو رہا ہے- اے ایف پی
کمبوڈیا کے انگکور پارک میں جنگلی حیات کے تحفظ کےایک پروگرام پر عمل درآمد ہو رہا ہے- اے ایف پی
کمبوڈیا کے انگکور پارک میں جنگلی حیات کے تحفظ کے سلسلے میں جنگلی حیات کے تحفظ ک کا ایک پروگرام - اے ایف پی

دی نیچر کنزروینسی کے افریقہ کے علاقائی مینیجنگ ڈائریکٹر ایڈیمولا اجاگبے کا کہنا ہے کہ افریقہ کے زیادہ تر وائلڈ لائف پارک 19 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے اوائل میں نوآبادیاتی حکومتوں نے بنائے تھےجنہوں نے علاقوں کو باڑ لگا دی اور مقامی لوگوں کو اس سےباہر رہنے کا حکم دیا۔ لیکن اب ماحولیات کے تحفظ پسندوں کو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ پارکوں کو چلانے اور پارکوں کے آس پاس رہنے والی مقامی کمیونٹیز کی مہارتوں کا استعمال ان کی حفاظت میں مدد کر سکتا ہے۔

سروائیول انٹر نیشنل کے ایک مشیر ،سائمن کونسیل کا کہنا ہے کہ "ان علاقوں کے باشندوں کو زبردستی بے دخل کیا جاتا ہے یا وہاں رہنے سے روکا جاتا ہے جیسے کہ ماسائی (تنزانیہ اور کینیا میں)، توا اور ایم بیوٹی(وسطی افریقہ میں) جو کئی نسلوں سے جنگلی حیات کے ساتھ رہ چکے ہیں " ۔

انہوں نے کہا کہ "افریقہ کو جنگلی حیات کے ایک ایسے مقام کے طور پر دکھایا گیا ہے جہاں لوگ نہیں رہتے ہیں اور اس بیانیے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔"

نمیبیا میں انٹیگریٹڈ رورل ڈویلپمنٹ ان نیچر کنزرویشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جان کاساونا کا کہنا ہے کہ"اگر ہم کمیونٹیز کی سماجی ضروریات، صحت، تعلیم اور اس پر توجہ نہیں دیتے کہ انہیں پانی کہاں سے مل رہا ہے ، تو ہم اہم چیز کو فراموش کردیتے ہیں،" ۔

ماہرین نے کہا کہ قومی پارکوں میں وسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

کروگر نیشنل پارک میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ شدید موسم پودوں اور جانوروں کو نقصان پہنچاتے ہیں، جو بار بار طویل دورانیو ں کی خشک سالی اور درجہ حرارت میں اضافوں جیسے سخت موسمی حالات سےمطابقت حاصل نہیں کر پاتے۔

نیروبی کے نیشنل پارک میں شیر: فائل فوٹو
نیروبی کے نیشنل پارک میں شیر: فائل فوٹو

کینیا وائلڈ لائف سروس کے سابق وارڈن فلپ وانڈرا نے جو آج کل کیتھولک یونیورسٹی آف ایسٹ افریقہ میں رینج مینجمنٹ کے لیکچرر ہیں، کہا ہے کہ خشک سالی نے گینڈوں، ہاتھیوں اور شیروں جیسی نسلوں کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں دستیاب خوراک کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔

وانڈرا نے کہا کہ جنگلی حیات کے تحفظ کا پہلا اہم قدم یہ ہے کہ پارکوں کا انتظام مزیدسخت کیا جائے اور وہ جنگلے ہٹا دیے جائیں جو جنگلی حیات کو ایسے علاقوں کی طرف نقل مکانی سے روکتے ہیں جہاں خشک سالی کے واقعات کم کم پیش آتے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ "قومی پارکوں کے اندر اور اس کے آس پاس رہنے والی آبادیوں کی مالی معاونت بھی انہیں محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو گی ۔

XS
SM
MD
LG