رسائی کے لنکس

جماعت الدعوۃ کے خلاف قانونی کارروائیاں، اب 'ایف اے ٹی ایف' سے ریلیف ملے گا؟


حافظ محمد سعید (فائل فوٹو)
حافظ محمد سعید (فائل فوٹو)

پاکستان کی عدالتیں کالعدم تنظیموں کے خلاف قائم مقدمات میں تیزی سے فیصلے سنا رہی ہیں جس کے بعد مبصرین خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا چاہتا ہے۔ اِسی لیے تیزی سے عدالتی کارروائی ہو رہی ہے۔

پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں حالیہ دنوں میں جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید سمیت تنظیم سے جڑے دیگر افراد کے خلاف تیزی سے مقدمات کی سماعت کر رہی ہیں جب کہ جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کو سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔

گزشتہ ہفتے لشکرِ طیبہ کے مبینہ رہنما اور ممبئی حملوں کے مبینہ ملزم ذکی الرحمٰن لکھوی کے خلاف قائم مقدمے میں سات دنوں میں کیس کی سماعت مکمل کر کے سزا سنائی گئی تھی۔

اسی طرح 12 جنوری کو جماعتِ الدعوة سے جڑے تین افراد کو بھی پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اِس سے قبل بھی مختلف عسکریت پسند تنظیموں سے جڑے افراد کے خلاف مقدمات کی تیزی سے سماعت کرتے ہوئے اُنہیں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔

محکمۂ داخلہ پنجاب کے مطابق جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کے 7 مقدمات قائم کیے گئے تھے جب کہ جماعت کے دیگر افراد کے خلاف مجموعی طور پر 41 مقدمات بنائے گئے تھے۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت کے محکمۂ پراسیکوشن کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں حافظ محمد سعید کے خلاف چھ مقدمات میں اُنہیں سزا سنائی جا چکی ہے۔ جب کہ جماعت کے دیگر مرکزی رہنماؤں کے خلاف مقدمات میں سے چار کے فیصلے آنا باقی ہیں جن کی سماعت جاری ہے۔

مقدمات کی سماعت میں تیزی کی وجوہات

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں سیاست کے معلم اور تجزیہ کار رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں حالیہ عرصے میں انتہا پسند تنظیموں کے خلاف تیزی سے کارروائیاں ہو رہی ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان پر کافی عرصے سے جو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اور عالمی برادری کا دباؤ ہے، اُس پر حکومت سوچتی ہے کہ کیسے نکلا جائے۔

کیا جدید ٹیکنالوجی منی لانڈرنگ روکنے میں مدد دے سکتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:20 0:00

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رسول بخش رئیس نے کہا کہ پاکستان اور خاص طور پر عمران خان کی حکومت امریکہ، مغرب اور دوست ممالک کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کو ختم کرنے میں وہ سنجیدہ ہیں اور اِس میں کسی کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔

تجزیہ کار رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ جن بھی کالعدم تنظیموں اور اُن کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات ہیں۔ اُن میں عدالتیں قانون کے مطابق کارروائی کر رہی ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ حکومت اِس میں کوئی اثر و رسوخ استعمال کر رہی ہے۔

ان کے بقول حکومت یہ نہیں کہہ رہی کہ عدالتیں فوری طور پر فیصلہ کریں۔ اُن کی اپنی ایک رفتار اور طریقۂ کار ہے۔ جہاں تک حکومت کی طرف سے پراسیکیوشن، ثبوت اور گواہوں کو پیش کرنا ہے تو حکومت اس میں عمل میں تیزی لائی ہے۔

صحافی احمد ولید کی رائے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بیشتر شرائط پاکستان نے پوری کر دی ہیں۔ چند ایک ہی باقی رہ گئی ہیں۔

احمد ولید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک بات تو واضح ہے کہ پاکستان نے اب ایسی تمام تنظیموں کے خلاف کارروائیاں شروع کی ہیں جن پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کا شبہ تھا۔ جن میں سے کچھ کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔ جب کہ ماضی میں پاکستان ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنے سے کتراتا رہا ہے۔

احمد ولید کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے مطابق پاکستان کو بہت سی دستاویزات تیار کرنی ہیں جن میں معیشت سے جُڑی زیادہ چیزیں ہیں۔ اقتصادیات سے متعلق چیزوں کو دستاویزات کے مطابق بنایا بھی جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے تعمیراتی شعبے سے متعلق ایمنیسٹی دینے کے بارے میں باقاعدہ عالمی برادری کو آگاہ کیا تھا۔ ایف اے ٹی ایف کے آئندہ ماہ فروری میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی کوشش ہے کہ اُنہیں بھرپور طریقے سے مطمئن کر سکے۔

احمد ولید نے کہا کہ پاکستان اگر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں گیا تو اسے اقتصادی اور سفارتی سطح پر مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اُن پابندیوں کو معیشت برداشت نہیں کر پائے گی۔

'ہر کیس کی سماعت جلد ہونی چاہیے، انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے​'

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی کہتے ہیں کسی بھی کیس میں تیزی سے انصاف کا حصول ملزم کا حق ہے۔ پاکستان کی عدالتوں میں سالوں کیس پڑے رہتے ہیں اور کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ ہر کیس کی سماعت جلد از جلد ہونی چاہیے۔ لیکن اُس میں کوئی قانونی سقم باقی نہ رہے اور انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا جائے۔

عابد ساقی نے بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی کی دفعات میں یہ بات شامل ہے کہ کیس کو جلد از جلد سنا جائے۔ دفعات میں یہ بات شامل ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کیسز کی سماعت ہو گی۔ اگر اپیل ہونی ہے تو اُس کا فیصلہ سات دن کے اندر کیا جائے۔ دفعات میں یہ بات واضح ہے کہ تمام کیسز کی سماعت انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں ہو۔ اُن کے تیزی سے فیصلے ہوں۔

کالعدم تنظیموں کے خلاف کیسز کی تیزی سے سماعت اور فیصلوں پر وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ اگر ملزم کو سزا ہوتی ہے تو وہ جیل چلا جائے گا اور قانون کے مطابق اُسے فیصلے کے خلاف اپیل کا پورا حق ہے۔

عابد ساقی نے بتایا کہ جب انسدادِ دہشت گردی عدالتیں بنائی گئی تھیں تو صرف اِس لیے الگ عدالتیں بنائی گئی تھیں کہ وہ تیزی سے مقدمات کی سماعت کر سکیں۔

کیا پاکستان ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کر پائے گا؟

ڈاکٹر رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اُمید رکھنی چاہیے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ جو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اہداف دیے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان کو کیا اقدامات کرنے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے قوانین میں ترامیم کی جس پر مذہبی رہنماؤں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ چند دن قبل مفتی منیب الرحمٰن نے بھی کہا تھا کہ اُنہوں نے اِن قوانین کے خلاف تحریک چلانی ہے۔

ڈاکٹر رسول بخش رئیس کی رائے میں دستاویزات اور رقوم کا حصول یہ دو چیزیں ہیں۔ جو مدارس اور ایسی تنظیموں نے بتانا ہے کہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے اور کیسے خرچ ہوا۔

اُن کے بقول حکومتیں حساب کتاب لیتی ہیں لیکن یہاں تو حکمران ہی جب منی لانڈرنگ میں ملوث اور کرپٹ ہوں۔ تو آپ دوسروں کو کیسے پکڑ سکتے ہیں۔ پہلی دفعہ ایسی حکومت آئی ہے جو پکڑ دھکڑ کر رہی ہے۔ یہ سب اس کا حصہ ہے۔

کیا حافظ سعید کی گرفتاری غیر ملکی دباؤ کا نتیجہ ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:34 0:00

صحافی احمد ولید سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے۔ حالیہ چند ماہ میں اسٹیٹ بینک اور دیگر پاکستانی بینکوں نے بہت سے ایسے اکاونٹس بند کیے جو مبینہ طور پر دہشت گردوں کی مالی معاونت میں استعمال ہونے کا اندیشہ تھا۔ ایسے افراد نے اسٹیٹ بینک کو یقین دہانی کرائی تو بینکوں نے اُن کے اکاونٹ بحال کیے۔

احمد ولید سمجھتے ہیں کہ اِس کے علاوہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ابھی بھی پاکستان نے کرنی ہیں۔ جن میں تجارت، کاروبار اور معیشت سے متعلق چیزوں کو دستاویزات کے مطابق بنانا ہے۔

اُن کے مطابق اسمگلنگ کو روکنے اور نام بدل کر دوسرے ناموں سے کام کرنے والی تنظیموں کے خلاف پاکستان کو ابھی اقدامات کرنے ہیں۔

کیا کالعدم جماعتوں کا ردِ عمل آ سکتا ہے؟

تجزیہ کار رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ جب بھی کسی کالعدم تنظیم کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو اُن کی جانب سے ردِ عمل کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ جماعتیں ریاست کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

اُن کے بقول ٹی ٹی پی سے بڑی کون سی تنظیم ہو سکتی تھی۔ پاکستان ایک کمزور ریاست نہیں ہے ایک طاقتور ریاست ہے۔

احمد ولید کی رائے میں پاکستان نے جن تنظیموں کے خلاف کارروائی کی۔ ان میں سب سے بڑی تنظیم جماعت الدعوة تھی، اُن کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

صحافی احمد ولید سمجھتے ہیں کہ کچھ تنظیمیں یا اُن سے جڑے کچھ افراد ہو سکتے ہیں جو حکومتِ پاکستان یا عسکری اداروں کے خلاف ہو جائیں۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین عابد ساقی کہتے ہیں کہ ایسے کیسز کی سماعت اور مقدمات کے دوران عدالتوں پر ملزمان کی جانب سے کسی حد تک دباؤ ہوتا ہے۔

عابد ساقی کے بقول پاکستان میں عدلیہ کو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو کر ایسے کیسز کے بارے میں فیصلے سنانے چاہئیں اور وہ سناتے بھی ہیں۔ لیکن اُن پر کسی حد تک دباؤ ہوتا ہے۔

پنجاب کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی(سی ٹی ڈی) پنجاب کے ترجمان کے مطابق پنجاب میں 78 کالعدم تنظیموں اور فورتھ شیڈول میں شامل 1500 افراد کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

سی ٹی ڈی پنجاب نے کالعدم تنظیم جماعتِ الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید اور دیگر رہنماؤں کو گزشتہ برس گرفتار کیا تھا جن کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام اور دیگر دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔

ایف اے ٹی ایف کا اجلاس آئندہ ماہ ہو گا جس میں پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا اور اِس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہے گا، اِس لسٹ سے نکل جائے گا یا بلیک لسٹ میں چلا جائے گا۔

ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کے مطابق پاکستان نے کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں اور اِن تنظیموں سے وابستہ کئی سرکردہ افراد کے خلاف بھی سخت کارروائی کی گئی ہے۔

واضح رہے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو جون 2018 میں گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG