پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے کالعدم تنظیم جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں فردِ جرم عائد کر دی ہے۔
بدھ کو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ نے مقدمہ نمبر 30/19 پر سماعت کی اور فرد جرم عائد کی۔ حافظ محمد سعید کے خلاف محکمہ انسداد دہشت گردی نے غیر قانونی فنڈنگ کے الزام میں مقدمہ درج کر رکھا ہے۔
عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے بعد پراسیکیوشن کے گواہوں کو طلب کر لیا ہے۔ سماعت کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالروف وٹو نے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے عدالت سے استدعا کی جبکہ حافظ سعید کے وکلا نے اُن پر فرد جرم عائد نہ کرنے کے لیے دلائل دیے۔
عدالت نے حافظ سعید اور دیگر چار ملزمان پر فرد جرم عائد کر کے سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے حافظ سعید کے خلاف مقدمہ نمبر 32/19 میں چالان کی کاپیاں حافظ سعید کو فراہم کر دیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حافظ سعید اور اُن کے ساتھیوں پر فرد جرم عائد ہونا پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی ہے۔
تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ اب صورتِ حال خاصی مختلف ہے۔ پاکستان منی لانڈرنگ کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ پہلے منی لانڈرنگ کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ حکومت نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے نئے قوانین بنائے ہیں اور کچھ پرانے قوانین کو تبدیل کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو کیس چلے گا، دیکھنا یہ ہے کہ اس کیس میں مزید کیا پیش رفت ہوتی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار عدنان عادل کے مطابق جو لوگ بھی اُن کی تنظیم سے وابستہ ہیں یا دیگر وہ تنظیمیں جن پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے کے الزامات ہیں اُن کو ایک پیغام دے دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست اب ان قوتوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ اگر انہوں نے ملک کے اندر یا باہر کوئی ریاست مخالف سرگرمی کی تو ان کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عدنان عادل نے کہا کہ حافظ سعید پر ماضی میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کرانے کا کوئی الزام نہیں لگا۔ عدنان عادل کا کہنا تھا حافظ سعید پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اور ان کی تنظیم کشمیر میں سرگرم ہے یا بھارت کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے۔
عدنان عادل کے بقول پاکستان پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا بہت دباؤ ہے۔ پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔ لہذٰا اقتصادی پابندیوں سے بچنے کے لیے پاکستان یہ اقدامات کر رہا ہے۔
عدنان عادل کا کہنا تھا کہ حافظ سعید پر یہ الزام ہے کہ وہ 2008 میں بھارت میں ہونے والے ممبئی حملوں میں ملوث ہیں۔ ماضی میں حافظ سعید پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ عدالتیں انہیں بری کرتی رہی ہیں۔ لیکن اب ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ تاکہ عالمی سطح پر پاکستان پر موجود دباؤ کم کیا جا سکے۔
عدنان عادل کے بقول پاکستان یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ دہشت گردی یا اس کی معاونت کرنے والے عناصر کو پاکستانی قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جا رہا ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو رواں سال جولائی میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پنجاب کی انسداد دہشت گردی پولیس نے حافظ سعید کو اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ لاہور سے گوجرانوالہ میں انسداد دہشت گردی عدالت جا رہے تھے۔
سی ٹی ڈی نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور نائب امیر عبدالرحمٰن مکی سمیت 13 مختلف رہنماؤں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت دہشت گردی کی مالی معاونت، منی لانڈرنگ کے 2 درجن سے زائد مقدمات درج کیے تھے۔
یکم اور دو جولائی 2019 کو جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے خلاف سی ٹی ڈی نے لاہور، گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد اور سرگودھا کے مختلف تھانوں میں تقریباً 23 مقدمات درج کیے تھے۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق جماعت الدعوۃ اپنے فلاحی ادارے الانفال ٹرسٹ، دعوۃ ارشاد ٹرسٹ، معاذ بن جبل ٹرسٹ اور دیگر اداروں کے ذریعے جمع ہونے والا فنڈ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ترجمان سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کا ساتھ دینے کے الزام میں دیگر کالعدم تنظیموں مثلاً لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور دیگر تنظیموں کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں۔
جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کی تنظیموں پر پابندی لگتی رہی ہے۔ امریکہ اور اقوام متحدہ نے بھی حافظ محمد سعید کا نام مطلوب دہشتگردوں کی فہرست میں درج کر کے اُن پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔