ایران کے سابق صدر احمدی نژاد اس سال جُون میں ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایک بار پھر صدارتی مقابلے کا حصہ ہوں گے۔
احمدی نژاد نے حالیہ برسوں میں اپنے سخت گیر موقف کو اعتدال پسند انداز میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور ایران کی حکومت پر تنقید بھی کی ہے۔
بدھ کے روز اپنے حامیوں میں گھرے محمود احمدی نژاد وزارت داخلہ کے رجسٹریشن دفتر پہنچے، جہاں انہوں نے انتخابی فارم پُر کئے اور رپورٹروں سے بات کرنے سے وکٹری یعنی فتح کا نشان بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے لاکھوں حامیوں کے مطالبے پر اس الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کی صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے، اور ملک کے انتظام میں ایک انقلاب کی ضرورت کے پیش نظر انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق، احمدی نژاد کے صدارتی دوڑ میں شامل ہونے سے مغرب کے ساتھ جاری کشیدہ مذاکرات میں امکانی طور پر سخت موقف رکھنے والی قیادت کو تقویت مل سکتی ہے۔
احمدی نژاد ہولو کاسٹ یعنی دوسری جنگِ عظیم کے دوران وسیع پیمانے پر یورپی یہودیوں کی نسل کشی سے انکار کرتے ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامینائی نے سن 2017 میں احمدی نژاد کے صدارتی دوڑ میں شامل ہونے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے فارم جمع کروائے تھے۔ تاہم ایران کی نگہبان شوریٰ نے جو آئینی طور پر نگران کا کردار ادا کرتی ہے، آخراً ان کو نا اہل قرار دے دیا تھا۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامینائی کا کہنا ہے کہ وہ کسی کی نامزدگی کی مخالفت نہیں کریں گے، لیکن ہو سکتا ہے کہ الیکٹورل کالج، احمدی نژاد کے امیدوار بننے کو مسترد کر دے۔ تاہم، کسی بھی صورت میں، عوامیت پسند احمدی نژاد کی سیاسی منظر نامے پر واپسی سے سخت موقف رکھنے والوں میں جوش و ولولہ پیدا ہو سکتا ہے، جو مغرب خاص طور پر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف مزید سخت موقف اختیار کرنے کے حامی ہیں۔
ایران میں صدارتی دوڑ کے لیے رجسٹریشن کا آغاز منگل سے ہو چکا ہے۔ یہ دوڑ ایسے وقت میں شروع ہو رہی ہے، جب عالمی قوتوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر تعطل اور مغرب کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے ایران میں غیر یقینی صورتحال بدستور جاری ہے۔
صدر حسن روحانی دو دفعہ اپنی چار چار سال کی مدت مکمل کرنے کے بعد، اب انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ تاہم، رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ اب تک کسی بھی امیدوار کو پسندیدہ خیال نہیں کیا جا رہا۔ پابندیوں اور کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کی وجہ سے عوام میں انتخابات سے متعلق کم ہی دلچسپی پائی جاتی ہے۔
ہر چند کہ صدر جو بائیڈن کی صدارت میں امریکہ نے جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کیلئے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے باوجود، ایران میں بہت سے لوگ، سخت موقف رکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔
ایران میں جو کوئی بھی 18 جون کو ہونے والے انتخابات میں فاتح قرار پاتا ہے، اسے اسلامی جمہوریہ ایران میں ایک اعتدال پسند خیال کئے جانے والے صدر روحانی سے حکومت کی باگ ڈور لینا ہو گی، جن کے دور میں ایران نے عالمی قوتوں کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کیا تھا۔ تاہم، ان کی مدتِ صدارت ختم ہونے کے قریب ہے، اور جوہری معاہدہ پیچیدگی کا شکار ہے، کیونکہ سن 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے یک طرفہ علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
احمدی نژاد نے ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے ایران کو مغرب کے سامنے کھڑا کر دیا تھا اور سن 2009 میں ان کی دوسری مدت کے لیے انتخاب کے بعد ملک میں سال 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔
بیرونی دنیا میں بھی ان کی ساکھ کو اس وقت نقصان پہنچا تھا، جب انہوں نے کہا تھا کہ ہولوکاسٹ ہوا ہی نہیں، اور اس بات پر اصرار کیا تھا کہ ایران میں ہم جنس پرستی کا وجود نہیں، اور یہ کہ ایران جب چاہے ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے۔
اندرونِ ملک، انہوں نے ایران کی شیعہ مذہبی قیادت کی جانب سے کھینچی گئی ایک واضح حد پار کی تھی، جب انہوں نے براہ راست ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامینائی کو چیلنچ کیا تھا، جن کا ریاست کے تمام معاملات پر فیصلہ حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔