پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گزشتہ تین روز کے دوران شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر پاکستانی فورسز کے فضائی حملوں میں تیزی آئی ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں پاکستانی فوج کی فضائی کارروائیوں میں کم ازکم 65 مشتبہ جنگجو مارے گئے۔
یہ اطلاعات ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب اتوار کو پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کو اُن کے آبائی علاقے اٹک میں شدت پسندوں نے ایک بم حملے میں 18 دیگر افراد سمیت ہلاک کر دیا تھا۔
سرکاری میڈیا نے فوج کے حوالے سے کہا ہے کہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ شمالی وزیرستان کے دو علاقوں شوال اور گرملائی میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائی میں 50 جنگجو مارے گئے ہیں اور اس کارروائی میں شدت پسندوں کے اسلحے کا ایک ذخیرہ بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔
خیبر ایجنسی کے علاقے راجگال میں کی گئی فضائی کارروائی میں مزید 15 شدت پسند مارے گئے۔
اس سے قبل اتوار کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ شوال کے علاقے میں کی گئی فضائی کارروائی میں 40 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
ان فضائی کارروائیوں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد و شناخت سے متعلق آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکی ہے کیونکہ جن علاقوں میں شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا وہاں تک میڈیا کے نمائندوں کی براہ راست رسائی نہیں۔
فوج نے گزشتہ سال جون میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا تھا جس کے بعد خیبر ایجنسی میں بھی ’خیبر ون‘ اور ’خیبر ٹو‘ کے نام سے آپریشن کیے گئے۔
فوج کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کے بیشتر علاقے کو شدت پسندوں سے پاک کرا لیا گیا ہے مگر شوال اور دتہ خیل کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں اب بھی شدت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔
اتوار سے جاری تازہ فضائی کارروائیوں میں انہی علاقوں میں چھپے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا۔