ججز بحالی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ فوج کا یہ کام نہیں ہے کہ ایک ادارے کے طور پر وہ عدالت کے فیصلے پر کوئی بھی رائے دے۔ یہ توہین عدالت کے مترادف ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے فیس بک لائیو میں گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اگر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ (ڈی جی آئی ایس پی آر) عدالت کے کسی بھی فیصلے پر موقف دے یا خاص طور پر کسی ادارے کے ترجمان بن کر کسی فیصلے پر بیان دیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ توہین عدالت ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے رجسٹراس نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔ یہ عدالت چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین ارکان پر مشتمل تھی۔ اس فیصلے میں جسٹس وقار احمد سیٹھ سمیت دو ججز نے سابق صدر کو مجرم قرار دیا تھا جبکہ ایک جج نے انہیں بری کیا۔
خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے سنگین غداری کیس میں تفصیلی فیصلے میں سابق صدر کو سزائے موت دینے کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں پاکستان لائے جائیں تو ان کی لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں تین دن کے لیے لٹکا دیا جائے۔
اس فیصلے کے بعد پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی پریس کانفرنس میں فیصلے کے پیرا 66 پر شدید تنقید کی ہے اور اسے مذہب اور تہذیب سے بالاتر قرار دیا ہے جبکہ یہ بھی کہا کہ وہ ملک اور ادارے کی عزت اور وقار کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور اس کا بھر پور دفاع کریں گے۔
فیصلے کے حوالے سے اعتزاز احسن نے مزید کہا کہ بینچ میں شامل ایک جج کی جانب سے سزائے موت کا بہیمانہ طریقہ تجویز کیا گیا۔ دوسرے جج نے عمومی سزائے موت دینے کا طریقہ تجویز کیا جبکہ تیسرے جج نے انہیں بری کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ اور چار صوبائی چیف جسٹسز سمیت اعلی عدلیہ دیگر 64 ججوں کو ان کے اہل خانہ سمیت گرفتار کیا تھا۔ میں سزا کے حوالے سے اختلاف کر رہا ہوں لیکن یہ نہیں کہہ رہا کہ جنرل مشرف نے آئین کی خلاف ورزی نہیں کی یا یہ نہیں کہہ رہا کہ ججوں کی اکثریت سے دیے گئے فیصلے میں حقائق درست نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ آئین کی سنگین خلاف ورزی اور اس پر دی جانے والی سزا دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ اس مقدمے میں دو چیزیں ہیں ایک ہے فیصلہ یعنی جرم ثابت ہونا جبکہ دوسرا اس پر دی جانے والی سزا ہے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے پر انہوں نے کہا کہ ججز کی اکثریت سے دیا گیا فیصلہ درست ہے۔ مشرف نے تین نومبر 2007 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ اور صوبائی چیف جسٹسز کو گرفتار کرکے ایک بہت سنگین آئینی جرم کیا تھا اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح انہوں نے 12 اکتوبر 1999 کو بھی سنگین غداری کا جرم کیا تھا جب منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو ان کے خاندان سمیت، صوبائی وزیر اعلی، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور صدر پاکستان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 3 نومبر 2007 کو بھی بالکل اسی طرح کا سنگین جرم تھا۔
عدالتی کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف پر جرم تو ثابت ہوا ہے۔ بینچ نے اکثریتی فیصلہ دیا ہے جبکہ ایک جج نے بری کیا ہے تاہم دو جج متفق ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سزا کے حق دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ پرویز مشرف کو پھانسی دی جائے اور اگر وہ حیات نہ ہوں تو ان کی لاش کو اسلام آباد میں ایوان صدر اور سپریم کورٹ کے قریب واقع ڈی- چوک پر تین دن تک لٹکایا جائے۔ اس معاملے پر بیرونی دنیا میں سمجھا جائے گا کہ پاکستان میں اسی قسم کی سزائیں ہوتی ہیں لیکن پاکستان کے اندر بھی اس پر ہرزہ سرائی ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے میں لکھے گئے پیرا 66 کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے لوگوں کو ایک آمر سے ہمدردی ہوگئی ہے۔ پرویز مشرف کی حمایت میں ایک شخص بھی نہیں تھا۔ کراچی میں ان کو خوش آمدید کہنے والے بس 11 افراد تھے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے جو بھی لکھا ہے وہ فیصلے کا حصہ ہے لیکن یہ ایک بیہودہ قسم کا خیال ہے۔ کل کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی لاش سڑک پر رکھ دی جائے تا کہ اسے چیلیں کھائیں۔ کہاں سے دقیانوسی قسم کا فیصلہ دیا گیا ہے۔
فیصلے کے بعد حکومت کے اقدامات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے میں نے یہ تجویز دی ہے کہ اس جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس ہونا چاہیے۔
ان کے بقول ان جج کی ذہنی استعداد دیکھی جانی چاہیے کہ وہ کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ انسانیت میں ہی ایسی کوئی سوچ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قرون وسطیٰ تو نہیں ہے کہ جب تلواریں چلتی تھیں اور سر کاٹے جاتے تھے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں سزائے موت موجود ہے تاہم اس کا ایک مہذب طریقہ کار موجود ہے۔ تاہم میں موت کی سزا دینے کے حق میں نہیں ہوں۔ سزائے موت کے قیدی کی بھی جان لینا اچھی بات نہیں ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ میں فکری اور نظری طور پر سزائے موت دینے کا مخالف ہوں۔ سزائے موت کو بہتر سزا نہیں سمجھتا اس سے جرم نہیں رُکتا۔