پاکستان اور افغانستان کے درمیان میچ میں بلوچستان سے متعلق ایک بینر پر بلوچ قوم پرست رہنما سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ اگر بلوچستان کے مسائل مقامی سطح پر حل ہو جاتے تو یہ آواز لندن اور جنیوا تک نہ پہنچتیں۔ دوسری جانب پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بلوچستان سے متعلق متنازع بینر لہرانے کے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہزاروں میل دور برطانیہ کے کرکٹ میچ میں اٹھائے گئے بینر کی تو فکر ہے، لیکن چند گھنٹوں کے فاصلے پر بلوچستان میں اجتماعی قبروں اور لاپتا افراد کے مسائل کی پرواہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بلوچستان کے مسائل ملکی سطح پر حل ہوں اور جب ہم نے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی تو یہ آواز اب پھیل کر باہر چلی گئی ہے۔
حال ہی میں عالمی ورلڈ کپ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے میچ میں جہاں اور بہت سے تلخ واقعات رونما ہوئے، وہیں اس میچ کے دوران بلوچستان سے متعلق ایک بینر بھی لہرایا گیا۔
ہوا کچھ یوں کے لیڈز میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کے دوران ایک چھوٹا جہاز اسٹیڈیم کے اوپر سے گزرا جس پر ایک بینر لگا ہوا تھا۔ اس بینر پر 'جسٹس فار بلوچستان' یعنی بلوچستان کے لیے انصاف کے الفاظ درج تھے۔
پاکستان نے دفترِ خارجہ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے پروپیگنڈے کے لیے کھیلوں کے میدان استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کھیلوں سے متعلقہ اداروں اور قانون نافذ کرنے والی اتھارٹیز سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔
بلوچ رہنما اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے عوام میں حکومت اور ریاست کے رویے سے پائی جانے والی مایوسی سے بیرون ملک بیٹھے ہوئے بلوچ علیحدگی پسندوں نے فائدہ اٹھایا۔
بلوچ قوم پرست رہنما کا کہنا تھا کہ یہ ہم سب کے لیے افسوس کا مقام ہے کہ جو مسائل ہم حل نہیں کر سکے۔ ان کی آوازیں اب جنیوا اور لندن میں اٹھائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریاست بلوچستان کے مسائل کو اہمیت دیتے ہوئے قومی ایجنڈے کا حصہ بناتی تو لندن کے کرکٹ گراؤنڈ پر لہرائے جانے والے بینر کو کوئی اہمیت نہ دیتا۔
دوسری طرف کرکٹ کے شائقین کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ سامنے آیا کہ ایک ملک کے اندرونی معاملے کو کھیل کے میدان میں کیوں لایا گیا اور یہ کہ مقامی انتظامیہ کو اس طرح کے واقعات کا سراغ لگانا چاہیے۔
اگرچہ ماضی میں بھی مختلف گروہوں نے کھیلوں کے میدانوں ذریعے میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ کھیل اور سیاست کو الگ رکھنا چاہیے اور کھیل کو تفریح کے طور پر ہی دیکھنا چاہئے۔
سابق پاکستانی کرکٹر عبدلقادر کہتے ہیں کہ کھیل کے میدان کو سیاست سے پاک ہونا چاہئے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت کو لیڈز کے میدان پر سے جہاز کے ذریعے بینر لہرانے کی تحقیقات کرنی چاہئے۔
بلوچستان کے مرکزی شہر کو ئٹہ میں بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان کرکٹ میچ کے دوران جہاز کے ذریعے لہرائے گئے بینر کا تذکرہ رہا۔ بعض حلقے اس واقعہ کو صوبے میں ایک طویل عر صے سے جاری احساس محرومی اور مکمل سیاسی حقوق سے انکار کا ردعمل قرار دے رہے ہیں اور بعض احتجاج کے اس طرح کے اظہار کو مثبت انداز میں لینے پر زور دے رہے ہیں۔