ایران میں مہسا امینی کی پولیس تحویل میں ہلاکت پر ہونے والے احتجاج کے دوران ایک اور 16 سالہ لڑکی کی ہلاکت معمہ بن گئی ہے۔ عدالت نے اس ہلاکت کے لیے سیکیورٹی فورسز کو ذمے دار قرار دینے کے الزامات مسترد کر دیے ہیں جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
ایران سے باہر قائم فارسی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نیکا شاکرمی کے اہل خانہ کو ان کی آبائی علاقے میں تدفین کے لیے جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی جب کہ نیکا شاکرمی کے دو قریبی رشتے داروں کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔
نیکا شاکرمی کی خالہ آتش شاکرمی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ احتجاج کے دوران 20 ستمبر کو نیکا شاکرمی گھر سے لاپتا ہوگئی تھیں۔ اس کے دس روز بعد ان کے اہلِ خانہ کو حکام نے نیکا شاکرمی کی لاش ملنے کی اطلاع دی تھی۔
گزشتہ ماہ ستمبر میں ایران کی اخلاقی پولیس ’گشتِ ارشاد‘ کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک گیر احتجاج میں شدت آرہی ہے۔ ایران سے باہر کئی ممالک میں ایران میں جاری مظاہروں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے احتجاج کیا جارہا ہے۔
حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والے کئی مقامی اور بین الاقوامی تنظمیوں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایران میں جاری احتجاج کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال کے باعث درجنوں ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
’نیکا مل گئی ، مگر زندہ نہیں‘
نیکا شاکرمی بھی حجاب کی پابندیوں کے خلاف تہران میں جاری ایک احتجاج میں شریک ہوئی تھیں جس کے بعد لاپتا ہوگئی تھیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق نیکا کی خالہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی ایک دوست کو جو آخری پیغام بھیجا اس میں بتایا تھا کہ سیکیورٹی اہل کار ان کا تعاقب کررہے ہیں۔
آتش شاکرمی کے مطابق اس واقعے کے 10 روز بعد نیکا کی لاش ملنے کی اطلاع ان کے اہلِ خانہ کو ملی تاہم جب وہ ان کی شناخت کے لیے پہنچے تو حکام نے چند لمحوں کے لیے صرف نیکا کا چہرہ دیکھنے کی اجازت دی تھی۔
بعد ازاں ان کے اہل خانہ نے نیکا شاکرمی کی لاش مغربی ایران میں خرم آباد میں آبائی گاؤں منتقل کر دی جہاں اتوار کو ان کی تدفین ہونا تھی اور اسی دن نیکا کی 17 ویں سالگرہ بھی تھی۔
حکام کی جانب سے سخت دباؤ کے باعث نیکا کے اہل خانہ نے ان کی آخری رسومات میں دیگر عزیز رشتے دار یا اہلِ علاقہ کو شامل نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم اس کے باوجود حکام نیکا کی میت اہلِ خانہ سے چھین کر لے گئے اور ان کی تدفین کردی۔
نیکا شاکرمی کی خالہ آتش شاکرمی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نیکا کے لاپتا ہونے اور ہلاکت کے بعد لکھا تھا کہ وہ زندگی سے بھرپور ایک خواب دیکھنے والی لڑکی تھی اور وہ ایران چھوڑنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
وائس آف امریکہ فارسی سروس سے بات کرتے ہوئے نیکا کی ایک ہم جماعت نے نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ نیکا کی گمشدگی سے پہلے دونوں کی ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ احتجاج میں شریک ہوئی تھی اور نیکا نے اپنا اسکارف بھی نذرِ آتش کردیا تھا۔ تاہم اس آخری رابطے کے بعد ان کا فون مسلسل بند جارہا تھا اور کسی کو ان کا اتا پتا معلوم نہیں تھا۔ پھر ایک دن نیکا کی خالہ کے ٹویٹ سے پتا چلا ’نیکا مل گئی ہے، مگر زندہ نہیں ہے۔‘
قریبی عزیز گرفتار
اطلاعات کے مطابق نیکا کی خالہ آتش شاکرمی اور ان کے ایک انکل کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ آتش شاکرمی نے دو اکتوبر کو آخری ٹویٹ کیا تھا جس کے بعد ان کا اکاؤنٹ غیر فعال ہے۔
اطلاعات کے مطابق نیکا شاکرمی کو تہران کے باہر کہریزک جیل میں رکھا گیا تھا۔ تاہم ایرانی حکام نے اس کی تاحال تصدیق نہیں کی ہے۔ نیکا شاکرمی کی ہلاکت کے بعد جب اہل خانہ کو ان کا چہرہ دیکھنے کی اجازت دی گئی تو ان کے بقول نیکا کی ناک اور کھوپڑی کی ہڈی بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔
پیر کو بی بی سی فارسی کی ایک رپورٹ کےمطابق بہشتِ زہرا نامی جس قبرستان میں نیکا شاکرمی کی تدفین کی گئی تھی، اس کی جاری کردہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیکا کی موت کسی ٹھوس چیز سے بار بار ضرب لگانے کے باعث ہوئی ہے۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق بدھ کو نیکا شاکرمی کی ہلاکت کی تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر آٹھ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔ تاہم ایران کی عدلیہ نے مہساامینی کے معاملے پر ہونے والے احتجاج اور نیکا شاکرمی کے موت کے درمیان تعلق کو مسترد کردیا ہے۔
ارنا کے مطابق تہران میں عدالتی عہدے دار محمد شریعتی کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں نیکا شاکرمی کے سر، بازو، ٹانگوں میں فریکچر اور دیگر اعضا پر زخم کے نشانات پائے گئے ہیں جن سے نشاندہی ہوتی ہے کہ انہیں کسی بلند مقام سے پھینکا گیا ہے۔
محمد شریعتی کے مطابق نیکا کے جسم پر گولی کا کوئی نشان نہیں پایا گیا اور دیگر شواہد بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی موت بلندی سے گرانے کے باعث ہوئی ہے۔ان کے بقول، نیکا شاکرمی کی موت کا تعلق ایران میں جاری حالیہ بے چینی سے نہیں ہے۔
قبل ازیں ایرانی خبر رساں ادارے 'تسنیم' نے کہا تھا کہ اس ہلاکت کی تحقیقات کے لیے جائے وقوعہ سے نزدیک واقع ایک عمارت میں کام کرنے والے آٹھ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔
ناروے میں قائم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم'ایران ہیومن رائٹس' کا کہنا ہے کہ ایران میں جاری مظاہروں کے خلاف ایرانی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں کم از کم سات خواتین سمیت 90 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔