رسائی کے لنکس

قرضوں کی تحقیقات: کمیشن سربراہ حسین اصغر کون ہیں؟


پاکستان کی وفاقی کابینہ نے دو سابق حکومتوں کے دور میں لیے جانے والے غیر ملکی قرضوں کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کا کمیشن تشکیل دینے کی منظوری دی ہے جس کے سربراہ ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر ہوں گے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ 2008ء سے 2018ء تک گزشتہ حکومتوں کی جانب سے لیے جانے والے قرضوں اور ان کے استعمال کی تفتیش کے لیے اعلیٰ اختیارات کا حامل کمیشن بنایا جائے گا۔

کمیشن کے سربراہ حسین اصغر کا تعلق پولیس سروس سے ہے جن کی وجہ شہرت کئی اہم مقدمات اور سیاسی رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات میں کی جانے والی تحقیقات کی سربراہی کرنا ہے۔

وہ پہلی بار اس وقت میڈیا لائم لائٹ میں آئے تھے جب 2012ء میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے انھیں حج کرپشن کیس کی تحقیقات سونپی تھیں۔

حج کرپشن کی تحقیقات کے دوران حسین اصغر کی شخصیت عدلیہ اور حکومت کے درمیان اس وقت وجہ نزع بن گئی تھی جب حکومت نے انھیں ترقی دیتے ہوئے گلگت بلتستان کا انسپکٹر جنرل پولیس تعینات کردیا تھا۔

لیکن، اس وقت کے چیف جسٹس نے انھیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

حج کرپشن کیس میں حسین اصغر نے پیپلز پارٹی کی اس وقت کی حکومت میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی اور وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی سے تفتیش کی تھی۔

عبدالقادر گیلانی نے سپریم کورٹ سے شکایت کی تھی کہ حسین اصغر انہیں ہراساں کر رہے ہیں اور حج کرپشن کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی ان کے خلاف تحقیقات کر رہے ہیں۔

گلگت بلتستان میں بطور آئی جی تقرری کے بعد سپریم کورٹ کے بلوانے کے باوجود پیش نہ ہونے پر چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کو حسین اصغر کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

اس حکم پر اس وقت کے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے حسین اصغر کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی اور ان کے بطور آئی جی گلگت بلتستان معطلی کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کر دیا تھا۔

2018ء میں وفاقی حکومت نے حسین اصغر کی خدمات پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھیں جس نے انھیں محکمۂ انسداد بدعنوانی پنجاب کا سربراہ بنا دیا تھا۔

اپنی اس حیثیت میں بھی حسین اصغر مختلف وجوہات کی بنا پر توجہ کا مرکز بنتے رہے۔ ان میں قابلِ ذکر لاہور کے میئر اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر ایک درخواست تھی جس میں حسین اصغر پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

میئر لاہور نے یہ بھی کہا تھا کہ میونسپل کارپوریشن لاہور کو بتائے بغیر شہر میں 28 شادی ہال بند کر دیے گئے جو کہ محکمۂ انسداد بدعنوانی کا دائرۂ اختیار نہیں۔

میئر لاہور اور ڈی جی ایل ڈی اے کی درخواست پر سپریم کورٹ نے حسین اصغر کو طلب کیا تھا۔ تاہم، اس مقدمے میں مزید کوئی کارروائی تاحال عمل میں نہیں آ سکی ہے اور یہ درخواست زیرِ سماعت ہے۔

محکمۂ انسداد بدعنوانی کی جانب سے سرکاری افسران کو ہراساں کیے جانے کی شکایات پر پنجاب حکومت نے چیف سیکریٹری کی اجازت کے بغیر گریڈ 18 یا زائد کے افسر کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تو حسین اصغر نے اسے اختیارات میں مداخلت تصور کیا اور سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

حسین اصغر کی درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب حکومت کے اس نوٹیفکیشن کو معطل کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر یہ اختیار نہیں ہوگا تو ادارے کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟

سپریم کورٹ نے پاک پتن اراضی کیس کی تحقیقات کا فیصلہ کیا تو چیف جسٹس ثاقب نثار کی نظرِ انتخاب پھر حسین اصغر پر ٹھہری اور انہیں اس کیس میں اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب نواز شریف کے کردار کا جائزہ لینے کے لیے تین رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حسین اصغر نے اگلی سماعت پر ہی کیس کی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی تھی جس میں نواز شریف کو زمین کی غیر قانونی منتقلی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

حسین اصغر کی یہ تحقیقاتی رپورٹ اس بنا پر بھی متنازع ہو گئی تھی کہ عدالت نے اپنے حکم نامے میں آئندہ سماعت پر صرف تحقیقاتی ٹیم کے قواعد و ضوابط پیش کرنے کا کہا تھا۔

حسین اصغر کی اس رپورٹ پر صرف ان کے دستخط موجود ہیں اور جے آئی ٹی کے دیگر دو ارکان کے نام تاحال منظرِ عام پر نہیں آ سکے ہیں۔

نواز شریف کے وکلا نے بھی اس رپورٹ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ یہ رپورٹ تیار کرتے وقت نہ تو متعلقہ اداروں سے بات کی گئی اور نہ ہی ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے کا بیان لیا گیا۔

رواں برس پولیس گروپ سے گریڈ 22 میں ریٹائرمنٹ کے بعد اپریل میں حکومت نے حسین اصغر کو قومی احتساب بیورو (نیب) کا ڈپٹی چیئرمین تعینات کر دیا تھا۔

حسین اصغر کی بطور ڈپٹی چیئرمین نیب تعیناتی پر حزبِ اختلاف کی بعض جماعتوں نے تحفظات کا بھی اظہار کیا تھا۔

خیال رہے کہ نیب میں ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ اس سے قبل موجود نہیں تھا۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حسین اصغر قرض تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ بننے کے بعد ڈپٹی چیئرمین نیب کا عہدہ چھوڑ دیں گے یا بیک وقت دونوں فرائض انجام دیں گے۔

حسین اصغر کو اس اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنانے کا فیصلہ منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا جس کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے بتایا کہ 2008ء سے 2018ء کے دوران وفاقی حکومت نے 24 ہزار ارب روپے کے قرض حاصل کیے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ 2005ء میں مالی ذمہ داری اور قرضہ جات کی حد کا ایکٹ لایا گیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک غیر ملکی قرضوں میں جکڑا نہ جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت غیر ملکی قرضوں کا حجم کسی صورت بھی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 60 فی صد سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن، ان کے بقول، اس قانون کی 2012ء سے خلاف ورزی شروع ہو گئی تھی۔

انھوں نے بتایا تھا کہ قرض تحقیقاتی کمیشن، 2017ء کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت وجود میں لایا گیا ہے جسے دیگر اداروں سے ممبران کو منتخب کرنے اور خدمات لینے کے اختیارات حاصل ہوں گے۔

وزیرِ اعظم کے معاون برائے احتساب کا کہنا تھا کہ کمیشن تعین کرے گا کہ گزشتہ 10 برس میں قرضہ اتنا زیادہ کیسے ہوا اور کمیشن کے دائرۂ اختیار میں یہ شامل ہے کہ غیر ملکی قرضوں کے استعمال کا فرانزک آڈٹ بھی کیا جائے۔

XS
SM
MD
LG