سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی نے کہا ہے کہ اب تک ان کے اغوا کے الزام میں جتنے بھی لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے یا پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے، ان کے بارے میں کبھی کسی سرکاری ذمے دار یا پولیس افسر نے ان سے بات نہیں کی۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں علی حیدر گیلانی نے کہا کہ ان کے اغوا کے الزام میں اب تک پولیس نے جن افراد کو گرفتار کرنے یا مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا ہے، ان کی نہ کبھی شناخت کرائی گئی اور نہ ہی کبھی ان کے بارے میں کچھ بتایا گیا۔
علی حیدر گیلانی کا یہ مؤقف ایسے وقت سامنے آیا ہے جب لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب پولیس کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کی طرف سے ساہیوال میں چار افراد کے قتل کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
ساہیوال میں گزشتہ ماہ پولیس کی فائرنگ سے مرنے والے چار افراد میں سے ایک ذیشان کے بارے میں بھی محکمۂ انسدادِ دہشت گردی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کے اس نیٹ ورک کا حصہ تھا جو علی حیدر گیلانی سمیت کئی افراد کے اغوا، قتل اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔
اس سے قبل محکمۂ انسدادِ دہشت گردی نے 15 جنوری کو فیصل آباد میں بھی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے دو افراد کو اِسی نیٹ ورک کا حصہ قرار دیا تھا جو حکام کے بقول علی حیدر گیلانی کے اغوا میں ملوث تھا۔
پولیس نے اس سے پہلے سن 2015 میں ملتان کے علاقہ جلال پور پیروالا میں مارے جانے والے بلال لانگ نامی شخص کے بارے میں بھی یہی دعویٰ کیا تھا کہ وہ سابق وزیرِ اعظم کے بیٹے کے اغوا میں ملوث تھا۔
محکمۂ انسداد دہشت گردی پنجاب کی ان تمام کارروائیوں اور دعووں پر علی حیدر گیلانی کا کہنا ہے کہ ان کی کبھی محکمۂ انسدادِ دہشت گردی یا پولیس کے دیگر افسران کے ساتھ اپنے اغوا کے بارے میں بات نہیں ہوئی اور نہ ہی انہیں کبھی پولیس نے یہ بتایا کہ ان کے اغوا میں کون لوگ ملوث تھے۔
علی حیدر گیلانی کے بقول گرفتار یا پولیس مقابلے میں مرنے والوں کی جو تصاویر انہوں نے ٹی وی پر دیکھی ہیں، انہیں وہ نہیں جانتے اور ان افراد کو ان کے اغوا سے جوڑنے کا مقصد بھی وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
سانحۂ ساہیوال سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ بے گناہ لوگوں کو ایسے نہیں مارنا چاہیے کیوں کہ دہشت گرد تنظیمیں اس طرح کے واقعات کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور انہیں پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی 2103ء کے عام انتخابات کی مہم کے دوران ملتان سے اغوا ہوئے تھے اور انہیں تین سال کے بعد بازیاب کرایا گیا تھا۔ لیکن ان کے اغوا اور بازیابی سے متعلق اب بھی مکمل معلومات سامنے نہیں آسکی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ انہیں القاعدہ نے اغوا کیا تھا اور پھر انہیں تحریکِ طالبان پاکستان کے حوالے کردیا گیا تھا جس نے ان کے بقول انہیں بعد میں افغانستان منتقل کردیا تھا۔
علی حیدر نے بتایا کہ القاعدہ کے ساتھ انہوں نے دو سال کا عرصہ گزارا اور پھر آخری 15 ماہ کا عرصہ وہ پاکستانی طالبان کے ساتھ رہے۔ ان کے بقول پاکستانی طالبان اور القاعدہ میں بہت فرق ہے۔
علی حیدر گیلانی 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران اغوا ہوئے تھے۔ لیکن اپنی رہائی کے بعد انہوں نے 2018ء کا انتخاب لڑا اور کامیاب ہو کر پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔
لیکن ان کے اغوا کے مبینہ ملزمان کی پولیس مقابلوں میں ہلاکت اور ان کی اس بارے میں لاعلمی نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔