پاکستان میں خواجہ سراوٴں کو انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا ہے جبکہ ملک بھر میں موجود تمام خواجہ سرا اب ووٹر لسٹ میں بھی اپنا نام درج کراسکیں گے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے گزشتہ روزخواجہ سراوٴں کو ووٹ کاحق دینے، شناختی کارڈ کے اجراء کا عمل تیز کرنے اور ووٹر لسٹوں میں نام درجہ کرانے کا باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا ۔اس پر شی میل رائٹس پاکستان کی چیئرپرسن الماس بوبی نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے عدلیہ کے فیصلوں سے ہمیں جائز مقام مل رہا ہے ۔
الماس بوبی کا کہناہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرناچاہتی ہیں اور اگر پارٹی ٹکٹ ملا تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف الیکشن لڑیں گی ۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پیر کو خواجہ سراوٴں کی جانب سے ووٹ کا حق دیئے جانے سے متعلق مقدمے کی سماعت کی تھی۔ خواجہ سراؤں کی جانب سے اسلم خاکی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ” شی میل رائٹس پاکستان “کی چیئرپرسن خواجہ سرا الماس بوبی نے عدالت کو بتایا کہ نادرا نے شناختی کارڈ جاری کرنے کا عمل تو شروع کر دیا ہے مگر دیہی علاقوں میں خواجہ سراؤں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ شناختی کارڈ کے عمل کو تیز کیا جائے اور الیکشن کمیشن خواجہ سراؤں کے ووٹ کے اندراج کے لئے بھی اقدامات کرے۔
اسلام آباد میں سماعت کے بعدوائس آف امریکہ کے نمائندے سے ٹیلی فون پرخصوصی گفتگو کرتے ہوئے الماس بوبی نے کہاکہ وہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہیں لیکن ان کے مالی وسائل اتنے نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال میں ایک عام آدمی انتخابات میں حصہ لینے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف ان کے پسندیدہ سیاستدان ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ ملنے کی صورت میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف بھی انتخاب لڑ سکتی ہیں۔
بوبی الماس انگلینڈ کے علاقے یارکشائر میں 1975 میں پیدا ہوئیں اور دس سال کی عمر میں اپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان پہنچیں ۔ الماس کے مطابق وہ اکثر خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر دل برداشتہ رہتی تھیں ۔ایک مرتبہ ان کے گھر پر ڈکیتی ہوئی جس کی ایف آر تک درج نہیں کی گئی جس کے بعد انہوں نے سوچا کہ اس کمیونٹی کے تحفظ کیلئے کوئی نہ کوئی پلیٹ فارم ہونا چاہیے۔ اسی خیال کے پیش نظر 1997 میں ”شی میل رائٹس “کی بنیاد رکھی گئی ۔
عدلیہ کے فیصلوں پر حکومت کی جانب سے عملدرآمد سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ خواجہ سراؤں سے متعلق فیصلوں پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔
الماس بوبی کا کہنا ے کہ انہوں نے جب خواجہ سراؤں کےحقوق کے لئے آواز بلند کی تولوگ اسے سب مذاق سمجھے ، یہاں تک کے ان کی کمیونٹی کے ساتھی بھی ان کے ساتھ نہیں تھے لیکن بعد میں ”لوگ آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا “آج کراچی ، لاہور ، سکھر اور پنجاب میں بھی” شی میل رائٹس پاکستان“ کے نمائندے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔“
انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ پہلے شناخی کارڈ میں جنس کا خانہ شامل ہوا پھر ملازمتیں ملیں اور آج سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ اگر لگن سچی ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ان کی کمیونٹی کی بھر پور حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد میں اب مزید تیزی آئے گی ۔
الماس بوبی نے بتایا کہ خواجہ سرا ہر شعبہ زندگی میں مردوں اور خواتین سے کسی طور پیچھے نہیں ، 2006ء میں بھارتی ریاست پٹنہ میں میونسپل ٹیکسز کی وصولی کےلئے خواجہ سراؤں کی خدمات حاصل کی گئیں، جس کے انتہائی حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ، اگلے سال راجستھان میں ایک گاؤں کی کو آپریٹو سوسائٹی نے بھی یہی تجربہ دھرایا ۔ خواجہ سرا نادہندگان کے گھر کے باہر اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک رقم واپس نہیں کردی۔
الماس بابی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قومی اداروں میں خواجہ سراؤں کیےلئے کوٹہ مختص کیا جائے گاتاکہ خواجہ سراؤں کو باعزت روزگارمیسر آئے ۔ جس سے معاشرے سے بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہو گا ۔الماس نے خواجہ سراؤں کے مسائل کا ذکرکرتے ہوئے بتایا کہ خواجہ سراؤں کی معاشی حالت انتہائی خراب ۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو ملک میں کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں اور بعض اوقات تو فنکشن سے لوٹتے ہوئے پوری کمائی چھن جاتی ہے ۔
الماس کے مطابق خواجہ سراؤں کیلئے پاکستان میں رہائش بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ، معاشرے میں امتیازی سلوک کے باعث کرائے کیلئے مکان تلاش کرنا انتہائی دشوار گزار عمل ہے ۔
الماس بوبی کے مطابق سپریم کورٹ میں سندھ کے سیکرٹری سماجی بہبود آبادی نے بتایا کہ خواجہ سراؤں کی رہائشی کالونی بنائی جا رہی ہے ، ان کی صحت کے پروگرام بھی شروع کئے ہیں اور وراثت میں جائیداد دلانے کے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں ، سیکرٹری کے اس بیان سے خواجہ سراؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور اگر ایسا عملی طور پر کیا جاتا ہے تو بڑی حد تک ہمارے مسائل کم ہو سکتے ہیں ، دیگر صوبائی حکومتوں اور وفاق سے بھی درخواست ہے کہ اس طرح کے اقدامات کیے جائیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض خواجہ سرا تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے لہذا والدین کا فرض بنتا ہے کہ بچوں کو خواجہ سرا کی جنس کے بارے میں سمجھائیں اور انہیں عزت دینا سکھائیں۔