پاکستان میں خواجہ سراوٴں کو معاشرے کے عام شہریوں کی طرح ملازمتیں دینے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جبکہ ان کے دیگر مسائل پر بھی حکومتی توجہ مرکوز ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا کردار عدالت عظمیٰ کا ہے جس نے حالیہ مہینوں میں خواجہ سراوٴں کے مسائل کو حل کے حوالے سے حکومت کو پابند کیا جبکہ دوسرا کردار وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کا ہے ۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارتی یعنی نادرہ کوسب سے پہلے یہ ہدایت کی کہ وہ ملک بھر میں موجود خواجہ سراوٴں کی رجسٹریشن کا کام مکمل کرے ۔ اس کے بعد انہیں باعزت روزگار کی فراہمی کے لئے ہدایات جاری کیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ نے بھی عدالت عظمیٰ کی تائید کرتے ہوئے نادرہ کو ہدایت جاری کیں کہ وہ محکمے میں خواجہ سراوٴں کو بھرتی کرے۔
ان ہدایات کی روشنی میں نادرا میں خواجہ سراوٴں کو ملازمتیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے مرحلے میں تین خواجہ سراوٴں کو ڈیٹا انٹری آپریٹر بھرتی کیا گیا ہے۔ایک کو کراچی جبکہ دو کو خیبر پختونخوا میں ملازمتیں دیں گئیں۔ اس کے علاوہ بھی نادرا دفاتر میں خواجہ سراوٴں کومزید ملازمتیں فراہم کرنے کی غرض سے پڑھے لکھے خواجہ سراوٴں کی تلاش جاری ہے جنہیں ان کی تعلیم کے مطابق ملازمت دی جائے گی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ہدایات پر نادرا نے ملک بھر کے خواجہ سراوٴں کے لئے شناختی کارڈ میں ایک علیحدہ خانہ بھی متعارف کروایا ہے جس کے بعد خواجہ سراوٴں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی اور ان کے حوالے سے اعداد جمع کر کے ان کی زندگیوں میں بہتری لانے میں مدد ملے گی۔
ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی خواجہ سراوٴں کی رجسٹریشن کا عمل جا رہی ہے جس کے لئے محکمہ سماجی بہبود سندھ کے ضلعی افسران کو بھی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ خواجہ سراوٴں سے متعلق اعداد و شمار اور کوائف جمع کرنے کے بعد ان کو باعزت روزگار اور ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی نہایت سہل ہو جائے گی۔
دوسری جانب خواجہ سراوٴں کو شناختی کارڈ کا اجراء شروع کردیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کا کہنا ہے کہ خواجہ سراوٴں کو وراثت کے حق سے محروم نہیں کیاجاسکتا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے روبرو خواجہ سراوٴں کے ایک وکیل نے حالیہ ہفتوں میں سماعت کے دوران عدالت کو بتایا تھاکہ والدین اب بھی اپنے اس طرح کے بچوں کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پیدائشی طور پرکوئی نقص ہونے کی بنیاد پر کسی کو وراثت سے محروم نہیں رکھاجاسکتا نہ ہی والدین کوایسے بچوں کو کسی اور کے حوالے کردیناچاہئے ،یہ درست رویہ نہیں ہے۔
ادھر سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ایئر پورٹ پر خواجہ سراوٴں کی تلاشی عورتیں لیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس سرمد جلال عثمانی اور مسٹر جسٹس غلام سرور کورائی پر مشتمل ڈویڑن بنچ نے خواجہ سراوٴں کے حقوق سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران حکم دیا کہ ائیر پورٹ پر خواجہ سراوٴں کی تلاشی کا کام مرد کی بجائے عورتیں کریں گی ۔