ماہرین امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ رواں برس کے اختتام سے پہلے کرونا وائرس کی ویکسین عوامی سطح پر دستیاب ہو جائے گی جس سے تیزی سے پھیلنے والی مہلک وبا کو روکنے میں مدد ملے گی۔ مگر دوسری جانب ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ تقریباً نصف امریکی ویکسین استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
امریکہ میں 'پیو ریسرچ سینٹر' کے رواں ماہ کیے گئے جائزے کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین دستیاب ہونے کی صورت میں 49 فی صد امریکی ویکسین لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ جب کہ 51 فی صد کا کہنا ہے کہ وہ ویکسین ضرور لیں گے۔
ویکسین لگوانے سے انکار کرنے والے امریکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ویکسین کے منفی اثرات سے متعلق خدشات ہیں۔
حالیہ سروے کے نتائج اس سے قبل مئی میں 'پیو ریسرچ سینٹر' کی جانب سے کیے گئے اسی طرح کے جائزے سے مختلف ہیں جس میں 72 فی صد امریکیوں نے کہا تھا کہ ویکسین آنے پر وہ اپنے بچاؤ کے لیے اسے ضرور استعمال کریں گے۔
ویکسین سے متعلق تحفظات کی وجہ یہ ہے کہ حالیہ سروے میں 77 فی صد امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ میں تیار کی جانے والی ویکسین عجلت میں یہ یقینی بنائے بغیر ہی فراہم کی جا سکتی ہے کہ وہ مکمل طور پر محفوظ ہے بھی یا نہیں۔
'پیو ریسرچ سینٹر' نے اپنے اس سروے میں 10 ہزار سے زیادہ امریکیوں کی رائے معلوم کی تھی۔ 78 فی صد نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ویکسین جلد لانے کے دباؤ کے پیشِ نظر اس کے محفوظ اور مؤثر ہونے کے بارے میں مکمل چھان بین کیے بغیر ہی منظوری دے دی جائے گی۔
جب کہ دوسری جانب سروے میں شامل 20 فی صد امریکیوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ ویکسین کی منظوری میں تاخیر پر پریشان ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اسے جلد سے جلد مارکیٹ میں لایا جائے تاکہ اس موذی مرض کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی جمعے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد تین کروڑ سے بڑھ گئی ہے جب کہ یہ مہلک وبا ساڑھے 9 لاکھ سے زیادہ زندگیاں نگل چکی ہے۔
دنیا بھر میں کرونا وائرس کے سب سے زیادہ متاثرہ افراد اور سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکہ میں سامنے آئی ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت نے جمعرات کو کہا تھا کہ یورپ میں کرونا وائرس کے تازہ واقعات میں تیزی سے اضافہ خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے جس سے بچاؤ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ کئی یورپی ممالک میں کرونا وائرس کے کیسز میں حالیہ اضافہ پابندیاں نرم کرنے، تعلیمی ادارے اور تفریحی مقامات کھولنے کے بعد ہوا ہے۔
دوسری جانب ماہرین پہلے ہی موسم سرما میں کرونا وائرس کی دوسری لہر آنے کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔