اس بارے میں عام طور سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ گیارہ ستمبر ، 2001 کو امریکہ پر دہشت گردی کے حملوں کی سازش اسامہ بن لادن کے ذہن کی پیداوار تھی۔ لیکن اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ اُس سال کے آخر میں جب امریکی فورسز نے بن لادن اور اس کے پیروکاروں کو افغانستان میں ان کے خفیہ ٹھکانوں سے نکال دیا، تو پھر بن لادن کا رول کیا رہ گیا۔
نائن الیون کے بعد کے برسوں میں، امریکہ اور مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا خیال یہ تھا کہ دنیا بھر میں القاعدہ کی مرکزیت بڑی حد تک ختم ہو گئی ہے اور وہ فرنچائز کے طور پر کام کرتی ہے یعنی اس کی شاخیں اپنی اپنی کارروائیاں خود کرتی ہیں۔ اس خیال کے تحت، بن لادن کی شخصیت سے القاعدہ کے لوگوں کو جوش و جذبہ ملتا تھا لیکن اس کی کارروائیوں میں اس کا کوئی خاص دخل نہیں تھا۔
لیکن ایبٹ آباد میں کمپاؤنڈ کے چھاپے میں بعض ایسی چیزیں ہاتھ آئی ہیں جن سے کم از کم پہلی نظر میں اس خیال کی نفی ہوتی ہے ۔ ایسی رپورٹیں سامنے آئی ہیں جن میں ریلوے لائنوں کو اڑانے کی سازشوں کا ذکر ہے اور بن لادن نے اپنے پیروکاروں پر زور دیا ہے کہ امریکی اہداف پر حملے کریں۔ بعض امریکی عہدے داروں کے حوالے سے اس کمپاؤنڈ کو کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کا نام دیا گیا ہے ۔
شان گریگوری انگلینڈ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں پاکستان سیکورٹی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ جائزہ لینے میں مصروف ہیں کہ وہ بن لادن اور القاعدہ کے بارے میں جو کچھ جانتی تھیں، وہ کس حد تک صحیح تھا۔’’میں نے بحر ِ اقیانوس کے دونوں طرف اپنے ساتھیوں سے جو ایک بات بار بار سنی ہے وہ یہ ہے کہ بہت برسوں سے لوگوں کا جو خیال تھا، اس کے مقابلے میں بن لادن القاعدہ کے معاملات سے کہیں زیادہ با خبر تھا۔‘‘
لیکن وہ مزید کہتے ہیں کہ شروع میں جو خیال تھا کہ اب دہشت گردی کی سرگرمیوں سے بن لادن کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے، وہ ایسا لگتا ہے کہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔’’لیکن مجھے کچھ ایسی باتیں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس کا لوگوں سے زیادہ رابطہ رہا ہو، لیکن اسٹریٹجی کے بنانے میں، فوجی کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں، اس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک طرح سے اس کا رول وہی رہا ہو جو ملا عمر کا افغان طالبان کے ساتھ ہے۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب تک جو مواد سامنے آیا ہے، اس سے اس پرانے خیال کی تصدیق ہوتی ہے کہ بن لادن کوئی عملی کارروائیوں والا لیڈر نہیں تھا۔ پال پلر کافی عرصے سی آئی اے میں کام کر چکےہیں اور مشرق قریب اور جنوبی ایشیا کے سابق نیشنل انٹیلی جنس افسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بن لادن کے ذہن میں خیالات تو بہت سے تھے لیکن وہ منصوبہ بندی کے مرحلے تک نہیں پہنچے۔’’اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے، اگر آپ اسے غور سے دیکھیں، تو میرے خیال میں اس کے رول کے بار ے میں جو تاثر تھا اس میں کوئی چیز تبدیل نہیں ہوئی۔ بیشتر ماہرین کا خیال تھا کہ بن لادن عام کارروائیوں سے بالکل بے خبر تو نہیں تھا لیکن اس کا رول بڑی حد تک نظریاتی اور علامتی تھا اور پبلیسٹی کرنے والے کا سا تھا۔ کئی برسوں سے وہ یہی رول ادا کر رہا تھا۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں القاعدہ کے بہت سے درمیانی سطح کے لیڈر گرفتار یا ہلاک کیے جا چکے تھے اور القاعدہ کی سرگرمیاں بہت محدود ہو گئی تھیں۔ اس کے علاوہ پلر کہتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے بہت سے واقعات یا سازشیں ، جیسے ٹائمز اسکوائر کا بمبار فیصل شہزاد، اور فورڈ ہُڈ میں گولیاں چلانے والا میجر ندال حسن، القاعدہ کی مرکزی قیادت کے دائرۂ کار کے باہر ہوئی تھیں۔’’یہ محض تھیوری نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے جس کے شواہد پچھلے چند برسوں میں جمع ہوتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کی بیشتر کارروائیوں کی منصوبہ بندی، ہدایات اور تربیت القاعدہ سینٹرل کے باہر ہوئی ہے۔‘‘
بن لادن کی جانشینی کا اصل امیدوار اس کا نائب ایمن الظواہری ہے۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ توقع ہے کہ اسے مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔القاعدہ کی شاخیں یمن میں اور دوسرے ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن وہ کوئی ایسی تنظیم نہیں ہے جو کسی مرکزی کنٹرول کے تحت کام کرتی ہو۔ دہشت گردی کے تجزیہ کار جیرمی بینی کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ بن لادن کے بغیر، القاعدہ کی شاخیں مقامی اہداف پر توجہ دیں جب کہ ان کے لیڈر بن لادن کی نظر میں عالمی اہداف زیادہ اہم تھے۔’’ان لوگوں کی نظر میں القاعدہ کا تصور مختلف ہے۔ ظواہری کو ایک ایسے شخص کی جگہ لینی ہوگی جو ہر ایک کی نظر میں محترم تھا اور جسے ایک عظیم شیخ سمجھا جاتا تھا۔ اس لحاظ سے بن لادن کی جگہ پُر کرنی بہت مشکل ہوگی۔‘‘
جیسا کہ پال پلر نے کہا ہے، بن لادن کی موت سے امریکیوں کو نائن الیون کے حملوں سے پہنچنے والے صدمے سے نکلنے کا موقع تو ملا ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہو گا کہ اس سے القاعدہ یا جہادی دہشت گردی کی موت واقع ہو گئی ہے۔