القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں ان کی ہلاکت کے واقعہ کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے کہا ہے کہ اس نے بن لادن کے اہلِ خانہ سے تفتیش کی ہے۔
اسامہ بن لادن کی تین بیویاں اور کئی بچے رواں برس مئی میں کی گئی اس کاروائی کے بعد سے پاکستانی حکام کی تحویل میں ہیں جس کے دوران امریکی کمانڈوز نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں خفیہ آپریشن کرکے وہاں روپوش القاعدہ کے سربراہ کو ہلاک کردیا تھا اور ان کی لاش اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔
واقعہ کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کمیشن کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے گزشتہ روز اسامہ بن لادن کی بیوائوں اور بچوں کے بیانات قلم بند کیے۔
بیان کے مطابق کمیشن کے ارکان نے شکیل آفریدی نامی اس پاکستانی ڈاکٹر سے بھی تفتیش کی ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے ویکسی نیشن کی جعلی مہم کے ذریعے ایبٹ آباد میں مقیم بن لادن اور ان کے اہلِ خانہ کے 'ڈی این اے' کے نمونے حاصل کرکے امریکی خفیہ اداروں کو فراہم کیے تھے۔
تحقیقاتی کمیشن نے پاکستان کی سراغ رساں فوجی ایجنسی 'آئی ایس آئی' کےسربراہ جنرل احمد شجاع پاشا سے بھی پوچھ گچھ کی ہے۔
واضح رہے کہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کی گئی امریکی فوجی کاروائی پر پاکستانی عوام کے غم و غصہ کے پیشِ نظر حکومت نےواقعہ کی تحقیقات کے لیے مذکورہ کمیشن قائم کیا تھا۔
کمیشن کا مقصد اس بات کی کھوج لگانا ہے کہ آخر کس طرح امریکی فوجیوں نے اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا سراغ لگایا اور پھر پاکستانی اداروں کے علم میں لائے بغیر ایک خفیہ کاروائی کرکے انہیں ایبٹ آباد جیسے شہر میں ہلاک کرڈالا جہاں ایک بڑی فوجی چھائونی بھی موجود ہے۔
کمیشن اس بات کی بھی تحقیقات کر رہا ہے کہ آخر القاعدہ رہنما کس طرح اتنے برسوں تک پاکستان میں روپوش رہے اور پاکستانی اداروں کو ان کی موجودگی کی خبر تک نہ ہوسکی۔
اس سے قبل جولائی میں کمیشن نے بن لادن کے اہلِ خانہ کی کسی دوسرے ملک کو حوالگی پر پابندی عائد کردی تھی۔