میری ماں نے تیسری بار پوچھا“یہ گھر میں اتنےسارے مہمان کیوں آئے ہیں؟ ” اور تیسری بار بھی میرا جواب تھا کہ“ , امی جان بتایا ہے نا کہ ناہیدکی شادی ہے۔” اور میری ماں نےبھولپن سے مسکرا کر مجھے دیکھا اور کہا کہ” پتہ نہیں میرے دماغ کو کیا ہو گیا ہے،ہاں، تم نے بتایا تو تھا کہ عاشی کی شادی ہے۔”......
"یہ وہ لمحہ تھا جب میری تشویش اور ڈر کا آغاز ہوا۔ میری ماں الزائمرز کی بیماری کی طرف بڑھ رہی تھی ،یادداشت کھودینےکی وہ خوفناک بیماری جس نے اگلے چند برسوں میں میری ماں سے ان کا ماضی چرا لیا۔ ”
یہ کہانی ہے امریکہ میں ایک عرصے سے مقیم پاکستانی امریکی خاتون شاہدہ کی( فرضی نام )جنہوں نے رندھی ہوئی آواز میں وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،” یہ نوے کی دہائی تھی اور پاکستان میں اس کا کوئی مناسب علاج بھی نہ تھا ۔اگلے دو برسوں میں میری امی اپنے بچوں کو بھی پہچاننا بھول گئیں ۔
میرا بھائی میری شکل دکھا کر انہیں یاد کرانے کی بے سود کوشش کرتا اور میری ماں مجھے ،یعنی اپنی سب سےچھوٹی، سب سے لاڈلی بیٹی کو دیکھ کر بس اتنا ہی کہتیں، ’’ہاں میں جانتی ہوں یہ اپنی ہی بچی ہے‘‘۔
"میری ماں سب بھولتی جارہی تھیں۔۔اور میں اپنی ماں کو ایسے نہیں دیکھ سکتی تھی۔"
شاہدہ کے لہجے میں دکھ مزیدبڑھ گیا تھا،” وہ تو جانے کس دنیا میں تھیں لیکن ان کی اس دنیا نے میرے دل کو جیسے دبوچ لیا تھا تھا۔ آج بھی جب کسی کو ارد گرد سے انجان اپنی دنیا میں مگن دیکھتی ہوں تو اپنی ماں کو یاد کرتی ہوں جن کی دنیا میں میری پہچان صفر ہو گئی تھی۔”
شاہدہ نےمزید بتایا کہ الزائمرز نے صرف ان کی ماں سے ان کاحافظہ نہیں چھینا تھا، اس نے ہمارے پورے خاندان کے ماضی،حال اور مستقبل کو اذیت ناک بنا دیا ۔
یہ کہانی صرف شاہدہ کی ہی نہیں ہے
شاہدہ جیسے لاکھوں لوگ اپنے والدین اور خاص طور پر 65 سال سے زیادہ عمر کےبزرگوں کو یاد داشت کی قاتل بیماری، الزائمرز کےباعث انہیں اپنے خاندان میں ایک اجنبی کی طرح اپنے ماضی سے بے خبر زندگی گزارتے ہوئے بے بسی سے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اس بیماری کی مکمل وجوہات کا ابھی تک نہ تو پتہ چل سکا ہےاور نہ ہی اس کا اب تک کوئی مستند علاج دریافت ہو سکا ہے۔
لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ امریکی ادویات پر کنٹرول کے ادارے نے اب ایک ایسی دوا کی منظوری دے دی ہے جسے مرض کے پہلے مرحلے میں استعمال کرنے سے مرض کو افاقہ یا اس کے پھیلنے کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔
یہ بیماری اصل میں ہے کیا، اورکیسے شروع ہوتی ہے ۔ اور کیا یہ انسان سے اس کی زندگی بھی چھین سکتی ہے ؟ اس بارےمیں جانتے ہیں ماہرین کی رائے۔
الزائمرز بڑھاپے کی بیماری ہے ۔
امریکہ کےنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجنگ کے مطابق الزائمرز دماغ کی ایک بیماری ہے جوآہستہ آہستہ یادداشت اور سوچنے سمجھنے, استدلال اور آخر کار روز مرہ کے معمولی کام کرنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کر دیتی ہے ۔
زیادہ ترعلامات بڑھاپے کے آغاز سے ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔
الزائمرز کیوں ہوتا ہے؟
یہ بیماری اصل میں ہےکیا، اس کی وجوہات کیا ہیں ؟یہ انسان سے صرف اس کا حافظہ ہی چراتی ہے یا زندگی بھی چھین سکتی ہے۔؟ اس کے بارے میں وی او اے سے ٹیلی فون پر ایک انٹرو ویو میں ایریزونا کی مڈ ویسٹرن یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور نیورالوجسٹ ڈاکٹر فرخ قریشی نے بتایاکہ الزائمرزکی نمایاں وجہ بڑھاپا ہے اورگزشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ میں اس مرض میں اضافہ ہورہا ہے
انہوں نے کہا کہ اس اضافے کی ایک وجہ یہ ہے یہاں صحت کی بہتر سہولیات بہتر خوراک اور بہتر لائف اسٹائل کی وجہ سے بوڑھے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تو جوں جوں ان کی آبادی بڑھے گی مریضوں کی تعداد بڑھتی جائے گی ۔
ڈاکٹر فرخ نے بتایا کہ الزائمرزکی وجوہات کا پتہ چلانے کے لئےسائنسدان ایک عرصے سے ریسرچز کر رہے ہیں لیکن وہ ابھی تک ان کا مکمل طور پر پتہ نہیں چلا سکے ہیں ۔ اکثر لوگ اسے یاد داشت کی عام بیماری ، نسیان یا ڈیمنشیا سمجھتے ہیں جب کہ یہ دونوں مختلف بیماریاں ہیں ۔
یاد داشت کی بیماری ڈیمنشیا اور الزائمرز میں فرق
ڈاکٹر فرخ نے بتایا کہ عمر کے ساتھ یاد داشت کا کمزور ہونا ایک عام بات ہے لیکن جب یہ یاد داشت اتنی کمزور ہوجائے کہ انسان کی عام زندگی متاثر ہونے لگے اور اسے اپنے روز مرہ کے کام کرنے میں رکاوٹ درپیش ہونے لگے، مثلاً وہ راستہ بھولنے لگے یا دوا کھانا بھول جائے لیکن اسے یہ ضرور معلوم ہو کہ اس کا حافظہ خراب ہورہا ہے اور وہ اپنے مرض سے نمٹنے کے لیے گھر والوں کی مدد لے سکے یا خود لکھ کر یا کسی اور طریقے سے اپنے روز مرہ کے معمولات انجام دے سکے اور اسے مستقل طور پر کسی مدد گار کی ضرورت پڑے تو اسے ڈیمنشیا یا نسیان کا مرض کہا جا تا ہے ۔
انہوں نے کہا نسیان کی وجوہات میں وٹامن بی 12 کی کمی یا تھائرائڈ کی خرابی شامل ہیں اور اس کا علاج وٹامن بی یا تھائرائڈ کے علاج کی ادویات سے ہو سکتا ہے ۔
لیکن انہوں نےوضاحت کی الزائمرز ایک ایسی بیماری ہے جس میں یاد داشت سے متعلق دماغ کے کچھ خاص حصوں میں نیورونز یا خلیے آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہیں اور ان کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔
امریکہ میں الزائمرز اموات کی ساتویں بڑی وجہ ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجنگ کے مطابق ماہرین کا اندازہ ہے کہ امریکہ میں اس وقت ممکنہ طور پر ساٹھ لاکھ افراد جن میں سے بیشتر کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ ہے، الزائمر میں مبتلا ہیں۔
اس وقت یہ امریکہ میں موت کی ساتویں سب سے بڑی وجہ ہے ۔ یہ بوڑھے لوگوں میں یاد داشت کی خرابی کے مرض نسیان یا ڈیمنشیا کی سب سے بڑی وجہ ہے، جس میں انسان کے سوچنے سمجھنے،یاد رکھنے اور استدلال اور روز مرہ کے کام انجام دینے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے۔
یہ براہ راست ہلاکت خیزبیماری نہیں ہے
ڈاکٹر فرخ نے بتایا کہ الزئمرزکی بیماری مریض کی براہ راست موت کی وجہ نہیں بنتی لیکن اس کے نتیجے میں دوسری بیماریاں پیداہو سکتی ہیں یا شدید ہو سکتی ہیں جو اصل میں اس کی موت کی وجہ بنتی ہیں ۔
مثلاً اگر اسے شوگر کا مرض ہے تو وہ بھول کر یا غلطی سے بہت زیادہ میٹھی اشیا کھا کر اپنا شوگر لیول بہت زیادہ بڑھا کراپنی جان خطرے میں ڈال سکتا ہے یا درکار شوگر کا استعمال نہ کر کے اپنا شوگر لیول انتہائی درجےکم کر سکتا ہے جو اس کی جان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے ۔
اسی طرح دوسری بیماریوں کے سلسلے میں ہو سکتا ہے۔ وگرنہ اس کے پٹھے اور ہڈیاں اور جسم کا سارا سسٹم بالکل ٹھیک ہوتا ہے ۔وہ کھڑا ہو سکتا ہے ،چل سکتا ہے۔ اس کے ہاتھ پاوں بالکل ٹھیک کام کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ اس کے دماغ اور پٹھوں کے درمیان ربط کا ہوتا ہے جو خراب ہو جاتا ہے ۔
الزائمرز کے مریض کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس سے بچاؤ اور اس کے علاج کے ممکنہ طریقے کیا ہیں اس بارے میں ڈاکٹر فرخ قریشی کے انٹرویو پر مبنی مزید معلومات ہم جلد پیش کریں گے۔
فورم