واشنگٹن —
القاعدہ کے راہنما ایمن الظواہری نے جہاد کے لیے اپنا پہلا باضابطہ ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے، مسلمان فرقوں اور غیر مسلموں کے خلاف حملوں سے احتراز کرنے کے لیے کہا ہے، اور یہ کہ یہ تنازعات اُن ملکوں میں شروع کیے جائیں جہاں اپنے خیالات کو فروغ دینے کے لیے جہادیوں کو محفوظ ٹھکانہ میسر ہو۔
رائٹرز خبر رساں ادارے کے مطابق، یہ دستاویز ’سائٹ‘ نامی مانیٹرنگ سروس نے شائع کی ہے، جو 11 ستمبر کے امریکہ کے خلاف حملوں کے تناظر میں اور شمالی افریقہ سے لے کر قفقاز اور کشمیر تک کے خطوں میں گذشتہ بارہ برسوں سے اختیار کی گئی القاعدہ کی حکمت عملی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
ایسے میں جب القاعدہ کے حربی عزائم امریکہ اور اسرائیل کو کمزور کرنا ہیں، ظواہری نے اپنا پیغام پھیلانے کے لیے’دعویٰ‘، یا مشنری کام، کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
اُن کے بقول، جہاں تک امریکہ کے حامیوں کو ہدف بنانے کا تعلق ہے، اِس کے اہداف مقام کے اعتبار سے جدا جدا ہیں۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ اُن کے ساتھ تنازع شروع کرنے سے بچا جائے، ماسوائے ایسے ممالک کے جہاں سوائے نمٹنے کے اور کوئی چارہ موجود نہ ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٕ یہ بیان شمالی افریقہ کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل لگتا ہے، جہاں، متعدد تجزیہ کاروں کے خیال میں، 2011ء کے عرب اسپرنگ کی بغاتوں کے بعد ایک سازگار ماحول میں نئے پیروکاروں کی تلاش کا کام نسبتاً آسان ہے، اکثر و بیشتر مقامی اتحادوں میں شریک ہوکر، جب کہ حملے نہ کرکے اپنے اوپر دھیان مبذول کرانے سے بچنے کا امکان زیادہ ہے۔
جہادی فورمز پر شائع کیے گئے جہاد کے عام ہدایت نامے میں ظواہری نے کہا ہے کہ، ’ہماری جدوجہد طویل ہے، اور جہاد جاری رکھنے کے لیے محفوظ ٹھکانوں کی ضرورت ہے‘۔
ظواہری نے اُن مقامات کی نشاندہی کی ہےجہاں لڑنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، جن میں افغانستان، عراق، شام، یمن اور صومالیہ شامل ہیں۔
انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق، ظواہری پاکستان میں روپوش ہے۔
ظواہری کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مجاہدین کے لیے محفوظ ٹھکانہ قائم کیا جائے، جسے پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی غرض سے استعمال کیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اس نیٹ ورک کو مضبوط حمایت حاصل ہے، جہاں اس کے بانی اسامہ بن لادن مئی 2011ء تک رہتے رہے۔ اُس کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ قریبی روابط ہیں، جس کے بارے میں حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اُن سے امن بات چیت کرے گی۔
رائٹرز خبر رساں ادارے کے مطابق، یہ دستاویز ’سائٹ‘ نامی مانیٹرنگ سروس نے شائع کی ہے، جو 11 ستمبر کے امریکہ کے خلاف حملوں کے تناظر میں اور شمالی افریقہ سے لے کر قفقاز اور کشمیر تک کے خطوں میں گذشتہ بارہ برسوں سے اختیار کی گئی القاعدہ کی حکمت عملی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
ایسے میں جب القاعدہ کے حربی عزائم امریکہ اور اسرائیل کو کمزور کرنا ہیں، ظواہری نے اپنا پیغام پھیلانے کے لیے’دعویٰ‘، یا مشنری کام، کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
اُن کے بقول، جہاں تک امریکہ کے حامیوں کو ہدف بنانے کا تعلق ہے، اِس کے اہداف مقام کے اعتبار سے جدا جدا ہیں۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ اُن کے ساتھ تنازع شروع کرنے سے بچا جائے، ماسوائے ایسے ممالک کے جہاں سوائے نمٹنے کے اور کوئی چارہ موجود نہ ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٕ یہ بیان شمالی افریقہ کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل لگتا ہے، جہاں، متعدد تجزیہ کاروں کے خیال میں، 2011ء کے عرب اسپرنگ کی بغاتوں کے بعد ایک سازگار ماحول میں نئے پیروکاروں کی تلاش کا کام نسبتاً آسان ہے، اکثر و بیشتر مقامی اتحادوں میں شریک ہوکر، جب کہ حملے نہ کرکے اپنے اوپر دھیان مبذول کرانے سے بچنے کا امکان زیادہ ہے۔
جہادی فورمز پر شائع کیے گئے جہاد کے عام ہدایت نامے میں ظواہری نے کہا ہے کہ، ’ہماری جدوجہد طویل ہے، اور جہاد جاری رکھنے کے لیے محفوظ ٹھکانوں کی ضرورت ہے‘۔
ظواہری نے اُن مقامات کی نشاندہی کی ہےجہاں لڑنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، جن میں افغانستان، عراق، شام، یمن اور صومالیہ شامل ہیں۔
انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق، ظواہری پاکستان میں روپوش ہے۔
ظواہری کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مجاہدین کے لیے محفوظ ٹھکانہ قائم کیا جائے، جسے پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی غرض سے استعمال کیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اس نیٹ ورک کو مضبوط حمایت حاصل ہے، جہاں اس کے بانی اسامہ بن لادن مئی 2011ء تک رہتے رہے۔ اُس کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ قریبی روابط ہیں، جس کے بارے میں حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اُن سے امن بات چیت کرے گی۔