اسلام آباد —
انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر امریکہ کو جوابدہ ہونا چاہیئے۔
منگل کو اپنی رپورٹ میں تنظیم کا کہنا ہے کہ حاصل ہونے والے نئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان میں غیر قانونی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے اور اس میں سے بعض جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آسکتی ہیں۔
’’وِل آئی بی نیکسٹ؟ یو ایس ڈرون اسٹرائیکس ان پاکستان‘‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ انسانی حقوق کے تناظر میں امریکی ڈرون پروگرام پر اب تک کا جامع مطالعہ پیش کرتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پاکستان پر محقق مصطفیٰ قادری کا کہنا ہے کہ ’’ڈرون پروگرام سے متعلق رازداری نے امریکی انتظامیہ کو عدالتی کارروائیوں اور بین الاقوامی قوانین سے آزاد رہتے ہوئے قتل کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔‘‘
ان کے بقول اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اس پر وضاحت پیش کرے اور ان خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرے۔
رپورٹ میں جنوری 2012ء سے اگست 2013ء کے درمیان پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ہونے والے 45 ڈرون حملوں کا احاطہ کیا گیا۔ اس میں نو حملوں کی تفصیلی تحقیقات کے بعد ان میں ہونے والی ہلاکتوں کی دستاویز بھی شامل کی گئی جس نے جنگی جرائم یا ماورائے عدالت قتل کا موجب بننے والے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں سے متعلق سوالات کو جنم دیا ہے۔
رپورٹ میں بعض شہری ہلاکتوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
امریکہ ان حملوں میں ’’دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کے برعکس ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان حملوں کا نشانہ بننے والے کسی لڑائی میں ملوث نہیں تھے اور نہ ہی ان سے کسی کی جان کو خطرہ تھا۔
مصطفیٰ قادری نے کہا کہ ان ہلاکتوں کا کوئی جواز نہیں مل سکا۔’’ خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو حقیقی خطرات درپیش ہیں اور بعض حالات میں ڈرون حملے قانونی بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس بات پر یقین کرنا قطعی ممکن نہیں کہ مزدوروں کا ایک گروپ یا اپنے پوتوں کے ساتھ ایک عمر رسیدہ خاتون کسی کے لیے خطرہ تھے اور امریکہ کو ان سے کسی طرح کے خطرے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
امریکہ کی طرف سے اس رپورٹ پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن پاکستان نے اسے اپنے موقف کی تائید قرار دیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ یہ کارروائیاں نا صرف اس کی خودمختاری بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف وزری ہیں۔
’’آہستہ آہستہ بہت ساری بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کے موقف کی تائید کر رہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا سمجھتی ہے کہ ڈرون حملوں سے بین الریاستی اُمور متاثر ہوتے ہیں اور دنیا کے امن کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے بین الاقوامی برادری میں ایک رائے عامہ بن رہی ہے اور ایمنسٹی کی رپورٹ کو بھی اس ہی تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو ہر سطح پر اجاگر کرتا آیا ہے اور وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ میں بھی اس پر بات ہو گی۔
حقوقِ انسانی سے متعلق مقامی تنظیم فاؤنڈیشن فار فنڈامینٹل رائٹس کے ڈائریکٹر مرزا شہزاد اکبر سمجھتے ہیں کہ ہتھیاروں سے لیس ڈرونز کے استعمال کی مخالفت میں اضافہ ان کارروائیوں کی روک تھام میں معاون ثابت ہوگا۔
’’جب امریکی عوام کی رائے اس بارے میں سخت ہو جائے گی کہ ہمیں یہ کام بند کر دینا چاہیئے تو پھر امریکی انتظامیہ کو بھی سوچنا پڑے گا ... ایک عمل شروع ہو گیا ہے اور یہ سب چیزیں اس بات کی طرف نشان دہی کر رہی ہیں کہ امریکہ کو اپنی حکمتِ عملی میں نظرِ ثانی کرنا پڑے کی اور شاید ہم جلد ہی اس کا اختتام دیکھیں۔‘‘
دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان نے بھی اس موقف سے اتفاق کیا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اور اس سے بڑھ کر اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی بن ایمرسن کی امریکہ ڈرون حملوں میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت پر حال ہی میں جمع کرائی گئی عبوری رپورٹ کے تناظر میں امریکہ پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
’’ڈرون حملوں کی مذمت میں ناصرف تیزی آئے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ پر اور بھی دباؤ پڑے گا کہ وہ واضح کرے کن نکات کے تحت یہ حکمتِ عملی استعمال کر رہا ہے، اور دوسرا یہ بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔‘‘
ماضی میں امریکی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ مربوط منصوبہ بندی کے بعد کی جانے والی ان کارروائیوں میں القاعدہ اور طالبان کے متعدد اہم کمانڈروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا ماننا ہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ سے منسلک طالبان شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ سرحد پار امریکی اور اتحادی افواج پر ہلاکت خیز حملے کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ نے بھی اپنی ایک عبوری رپورٹ میں امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ڈرون حملوں میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کی تعداد منظر عام پر لائے۔
ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان کے رہائشی امریکی ڈرون حملوں کے خطرے کے علاوہ یہاں مسلح گروہوں اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں اور مقامی آبادی مسلسل خوف میں زندگی بسر کر رہی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ القاعدہ اور طالبان کے شدت پسندوں کی موجودگی میں یہاں کے لوگوں کو اپنے دیہاتوں اور اضلاع پر اختیار برائے نام ہی ہے۔
مقامی آبادی نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ وہ کسی بھی ردعمل کے خوف سے حکام سے ان مسلح گروہوں کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کی شکایت بھی نہیں کر سکتے جب کہ بعض لوگ امریکی ڈرون حملوں پر بات کرنے سے بھی خوفزدہ تھے۔
رپورٹ میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت اور حقائق کو منظر عام پر لائے اور ان حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی معلومات اور ان پر ہونے والی کسی بھی طرح کی تحقیقات کے بارے میں بھی آگاہ کرے۔
مزید برآں غیر قانونی طور پر ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو موثر انصاف تک رسائی اور زرتلافی کو یقینی بنایا جائے۔
اس ہی نوعیت کے مطالبات حکومت پاکستان سے بھی کیے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ امریکی حکام سے ڈرون حملوں کے نقصانات کے ازالے کے لیے بھی بات کرے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بین الاقوامی برادری سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امریکی ڈرون حملوں اور ایسی دیگر کارروائیوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی مخالفت کرے۔
’’ریاستوں کو چاہیے کہ اس پر سرکاری سطح پر احتجاج کریں اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں اس کا حل تلاش کریں۔‘‘
منگل کو اپنی رپورٹ میں تنظیم کا کہنا ہے کہ حاصل ہونے والے نئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان میں غیر قانونی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے اور اس میں سے بعض جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آسکتی ہیں۔
’’وِل آئی بی نیکسٹ؟ یو ایس ڈرون اسٹرائیکس ان پاکستان‘‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ انسانی حقوق کے تناظر میں امریکی ڈرون پروگرام پر اب تک کا جامع مطالعہ پیش کرتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پاکستان پر محقق مصطفیٰ قادری کا کہنا ہے کہ ’’ڈرون پروگرام سے متعلق رازداری نے امریکی انتظامیہ کو عدالتی کارروائیوں اور بین الاقوامی قوانین سے آزاد رہتے ہوئے قتل کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔‘‘
ان کے بقول اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اس پر وضاحت پیش کرے اور ان خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرے۔
رپورٹ میں جنوری 2012ء سے اگست 2013ء کے درمیان پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ہونے والے 45 ڈرون حملوں کا احاطہ کیا گیا۔ اس میں نو حملوں کی تفصیلی تحقیقات کے بعد ان میں ہونے والی ہلاکتوں کی دستاویز بھی شامل کی گئی جس نے جنگی جرائم یا ماورائے عدالت قتل کا موجب بننے والے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں سے متعلق سوالات کو جنم دیا ہے۔
رپورٹ میں بعض شہری ہلاکتوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
امریکہ ان حملوں میں ’’دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کے برعکس ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان حملوں کا نشانہ بننے والے کسی لڑائی میں ملوث نہیں تھے اور نہ ہی ان سے کسی کی جان کو خطرہ تھا۔
مصطفیٰ قادری نے کہا کہ ان ہلاکتوں کا کوئی جواز نہیں مل سکا۔’’ خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو حقیقی خطرات درپیش ہیں اور بعض حالات میں ڈرون حملے قانونی بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس بات پر یقین کرنا قطعی ممکن نہیں کہ مزدوروں کا ایک گروپ یا اپنے پوتوں کے ساتھ ایک عمر رسیدہ خاتون کسی کے لیے خطرہ تھے اور امریکہ کو ان سے کسی طرح کے خطرے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
امریکہ کی طرف سے اس رپورٹ پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن پاکستان نے اسے اپنے موقف کی تائید قرار دیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ یہ کارروائیاں نا صرف اس کی خودمختاری بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف وزری ہیں۔
’’آہستہ آہستہ بہت ساری بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کے موقف کی تائید کر رہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا سمجھتی ہے کہ ڈرون حملوں سے بین الریاستی اُمور متاثر ہوتے ہیں اور دنیا کے امن کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے بین الاقوامی برادری میں ایک رائے عامہ بن رہی ہے اور ایمنسٹی کی رپورٹ کو بھی اس ہی تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو ہر سطح پر اجاگر کرتا آیا ہے اور وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ میں بھی اس پر بات ہو گی۔
حقوقِ انسانی سے متعلق مقامی تنظیم فاؤنڈیشن فار فنڈامینٹل رائٹس کے ڈائریکٹر مرزا شہزاد اکبر سمجھتے ہیں کہ ہتھیاروں سے لیس ڈرونز کے استعمال کی مخالفت میں اضافہ ان کارروائیوں کی روک تھام میں معاون ثابت ہوگا۔
’’جب امریکی عوام کی رائے اس بارے میں سخت ہو جائے گی کہ ہمیں یہ کام بند کر دینا چاہیئے تو پھر امریکی انتظامیہ کو بھی سوچنا پڑے گا ... ایک عمل شروع ہو گیا ہے اور یہ سب چیزیں اس بات کی طرف نشان دہی کر رہی ہیں کہ امریکہ کو اپنی حکمتِ عملی میں نظرِ ثانی کرنا پڑے کی اور شاید ہم جلد ہی اس کا اختتام دیکھیں۔‘‘
دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان نے بھی اس موقف سے اتفاق کیا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اور اس سے بڑھ کر اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی بن ایمرسن کی امریکہ ڈرون حملوں میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت پر حال ہی میں جمع کرائی گئی عبوری رپورٹ کے تناظر میں امریکہ پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
’’ڈرون حملوں کی مذمت میں ناصرف تیزی آئے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ پر اور بھی دباؤ پڑے گا کہ وہ واضح کرے کن نکات کے تحت یہ حکمتِ عملی استعمال کر رہا ہے، اور دوسرا یہ بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔‘‘
ماضی میں امریکی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ مربوط منصوبہ بندی کے بعد کی جانے والی ان کارروائیوں میں القاعدہ اور طالبان کے متعدد اہم کمانڈروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا ماننا ہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ سے منسلک طالبان شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ سرحد پار امریکی اور اتحادی افواج پر ہلاکت خیز حملے کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ نے بھی اپنی ایک عبوری رپورٹ میں امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ڈرون حملوں میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کی تعداد منظر عام پر لائے۔
ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان کے رہائشی امریکی ڈرون حملوں کے خطرے کے علاوہ یہاں مسلح گروہوں اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں اور مقامی آبادی مسلسل خوف میں زندگی بسر کر رہی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ القاعدہ اور طالبان کے شدت پسندوں کی موجودگی میں یہاں کے لوگوں کو اپنے دیہاتوں اور اضلاع پر اختیار برائے نام ہی ہے۔
مقامی آبادی نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ وہ کسی بھی ردعمل کے خوف سے حکام سے ان مسلح گروہوں کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کی شکایت بھی نہیں کر سکتے جب کہ بعض لوگ امریکی ڈرون حملوں پر بات کرنے سے بھی خوفزدہ تھے۔
رپورٹ میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت اور حقائق کو منظر عام پر لائے اور ان حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی معلومات اور ان پر ہونے والی کسی بھی طرح کی تحقیقات کے بارے میں بھی آگاہ کرے۔
مزید برآں غیر قانونی طور پر ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو موثر انصاف تک رسائی اور زرتلافی کو یقینی بنایا جائے۔
اس ہی نوعیت کے مطالبات حکومت پاکستان سے بھی کیے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ امریکی حکام سے ڈرون حملوں کے نقصانات کے ازالے کے لیے بھی بات کرے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بین الاقوامی برادری سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امریکی ڈرون حملوں اور ایسی دیگر کارروائیوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی مخالفت کرے۔
’’ریاستوں کو چاہیے کہ اس پر سرکاری سطح پر احتجاج کریں اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں اس کا حل تلاش کریں۔‘‘