انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ پاکستان نے 2019 میں آزادیِ اظہار پر قدغنیں بڑھائی ہیں جب کہ جبری گمشدگی و تشدد روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی میں ناکام رہا ہے۔
اپنی سالانہ رپورٹ میں تنظیم نے کہا ہے کہ سول سوسائٹی کے لیے ملک بھر میں انسانی حقوق کے دفاع اور فروغ کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی انسانی حقوق کی سالانہ جائزہ رپورٹ جمعرات کو جاری کی گئی ہے جس میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے خطے میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے عالمی تنظیم نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تسلسل سے جاری ہے۔ سال 2019 کے دوران بھی تشدد، خواتین کو نشانہ بنانے، صحافت پر قدغنیں اور لسانی و مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کرنے کے واقعات ہوتے رہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پابندیوں کے باوجود طلبہ، کشمیریوں، خواتین کے حقوق اور جبری گمشدگیوں کے خلاف سال بھر پر امن احتجاج ہوتے رہے۔
یاد رہے کہ جبری گمشدہ افراد کے حوالے سے بل قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد کئی ماہ سے وزارتِ قانون میں التوا کا شکار ہے۔
وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے گزشتہ سال قومی اسمبلی کے اجلاس میں شکوہ کیا تھا کہ وزارتِ قانون اس بل میں غیر ضروری تاخیر کر رہی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا کے نائب ڈائریکٹر عمر وڑائچ نے کہا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنا انتہائی دشوار ہو چکا ہے۔ تاہم، ان کے خیال میں گزشتہ سال پاکستان میں حقوق کے حصول، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، طلبہ و خواتین کے حقوق اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے آواز بلند کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ملک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اس قدر سنگین کبھی نہیں تھی جو موجودہ حکومت کے آنے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ ان کے بقول، انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کے لیے زمین تنگ ہو چکی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کے تحفظ کی قرارداد کی مخالفت کی اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق گزشتہ سال سے غیر فعال ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کام کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن مقتدر حلقے انہیں کام نہیں کرنے دے رہے۔ لہٰذا، ایسی صورتِ حال میں انہیں وزارت سے علیحدہ ہوجانا چاہیے، تاکہ ان قوتوں پر دباؤ پیدا ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک لاپتا فرد کے حوالے سے سیکریٹری دفاع اور انسپکٹر جنرل پولیس کو جرمانے کا فیصلہ سنایا تو موجودہ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر کے مطابق، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہی گئی باتیں وہی ہیں جو پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکن اکثر و بیشتر کہتے رہتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا ایکشنز آرڈیننس کا نفاذ جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے حکومتی وعدوں کے برخلاف ہے۔ مجوزہ قانون کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے اختیارات دیے گئے ہیں جن کے غلط استعمال کا خدشہ موجود ہے۔ ان اختیارات میں لوگوں کو بغیر کسی جرم اور عدالت میں پیش کیے حراست میں رکھنا شامل ہے۔
دوسری جانب، حکومت کا کہنا ہے کہ تمام لاپتا افراد کی گمشدگی کو ریاست سے نہیں جوڑا جا سکتا اور اس حوالے سے مجوزہ قانون سازی میں لوگوں کی گمشدگی میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری مقدمہ چلانا تجویز کیا گیا ہے۔
پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ افراد کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ نے بھی کہا ہے کہ جبری گمشدگی کے معاملے کو سیاسی بنایا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق، سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو 'ظالمانہ قوانین' کے ذریعے ہدف بنایا گیا ہے، جن میں سائبر کرائم ایکٹ، انسداد دہشت گردی ایکٹ اور پینل کوڈ کی متعدد دفعات شامل ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، حکام نے پشتون تحفظ تحریک کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں بھی تیزی دکھائی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کا قانون بھی انفرادی سطح پر غلط استعمال کیا جا رہا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث ہے۔