انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واج (ایچ آر ڈبلیو) کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2019 کے دوران پاکستان میں میڈیا، حزب اختلاف اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید دباؤ کا شکار رہیں۔
تنظیم نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور میڈیا کی آزادی پر مبنی رپورٹ بدھ کو جاری کی ہے۔ جس میں پاکستان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران پاکستان میں ان ذرائع ابلاغ اور ٹی وی چینلز کو دباؤ کا سامنا کرنا جن کے پروگراموں میں حکومت یا ریاستی اداروں پر تنقید کی گئی۔ اس ضمن میں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران سرکاری ادارے 'پیمرا' کے ذریعے بعض چینلز کی نشریات روکنے کے علاوہ جرمانے بھی کیے گئے۔
البتہ پیمرا کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ صرف قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی کی گئی۔
رپورٹ میں نو جولائی 2019 کو تین پاکستانی چینلز کی نشریات معطل کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق حزب اختلاف کے رہنماؤں کی تقاریر نشر کرنے پر ان چینلز کے خلاف کارروائی کی گئی۔
پیمرا کی جانب سے پاکستان کے نجی نیوز چینل 'جیو' پر سابق صدر آصف زرداری کا انٹرویو بھی نشر ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
تنظیم کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان آزادی اظہار اور اختلاف رائے کے لیے جمہوری تقاضوں کا احترام یقینی بنائے۔
سینئر تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ 2019 پاکستان کے لیے آزادی اظہار رائے اور آزاد میڈیا کے لیے کچھ اچھا نہیں رہا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ مقامی نیوز چینلز کے لیے آزادانہ رپورٹنگ یا تجزیے کرنا ممکن نہیں رہا۔
زاہد حسین کے بقول یہ صورتِ حال ایک غیر اعلانیہ سنسر شپ ہے۔ زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتِ حال دُنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں جس پاکستان میں آزاد صحافت کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوئیں۔
زاہد حسین کے بقول اگرچہ کتابوں پر پابندی تو عائد نہیں کی گئ ہے لیکن اس کے باوجود بعض کتابوں کو ضبط کرنے کے واقعات بھی منظر عام پر آئے ہیں۔
زاہد حسین کے مطابق عمران خان کی حکومت ان وعدوں پر برسراقتدار آئی تھی کہ عوام کے جمہوری حقوق اور آزادی اظہار کو یقینی بنائے گی۔ لیکن یہ وعدے پورے نہیں ہوئے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ ان پابندیوں سے خاص طور پر پاکستان کے دور دراز کے علاقوں میں کام کرنے والے صحافی زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
زاہد حسین کا یہ استدلال ہے کہ مرکزی دھارے کے ٹی وی چینلز اور اخبارات پر دباؤ ڈالنے کے باوجود آزادی اظہار کو کنڑول کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ کیوں کہ اب سوشل میڈیا پر بھی لوگ اپنی بات کہنے میں کسی حد تک آزاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ حکومتیں جو کمزور ہوتی ہیں وہ صحافت کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں ان پابندیوں کے خلاف مزاحمت بھی جاری ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔ جن میں بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھنا اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے واقعات بھی شامل ہیں۔
تنظیم کے ایشیا ڈائریکٹر ایڈمز نے کہا کہ پاکستانی حکام کو اختلاف رائے کمزوری سمجھنے کی بجائے اسے اپنی طاقت بنانا چاہیے۔ ان کے بقول حکومتِ پاکستان کو امتیازی قوانین کو ختم کرنے کے لیے اقدام کرنے چاہئیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی تازہ رپورٹ پر تاحال حکومتِ پاکستان نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ البتہ پاکستان کی حکومت کا ماضی میں یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان میں مذہب یا رنگ و نسل کے بغیر شہریوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی ماضی میں کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی میڈیا مکمل آزاد اور خود مختار ہے۔