رسائی کے لنکس

کیا طاقت ور امریکی بم ایران کی انتہائی گہری جوہری تنصیب کو تباہ کر سکتا ہے؟


ایران کی نئی زیرِ زمین ایٹمی تنصیب کی تعمیر۔ فوٹو اے پی
ایران کی نئی زیرِ زمین ایٹمی تنصیب کی تعمیر۔ فوٹو اے پی

ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ میں اضافے کے دوران امریکی فوج نے اس ماہ طاقتور بم کی تصاویر پوسٹ کیں جو زیرِ زمین گہرائی میں ایسی تنصیبات کو تباہ کرسکتا ہے جو یورینیم افزودہ کرنے کے لیے تعمیر کی گئی ہوں۔

2 مئی کو امریکی ایئر فورس نے جی بی یو ۔57 نامی اس بم کی کچھ غیر معمولی تصاویر پوسٹ کی تھیں لیکن پھر یہ تصاویر ہٹا دی گئیں اور بظاہر اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان تصاویر سے اس بم کی ساخت اور طاقت کے بارے میں حساس تفصیلات افشا ہونے کا خطرہ تھا۔

اس سے پہلے ایسو سی ایٹڈ پریس نے خبر دی تھی کہ ایران ایک ایسی زیرِ زمین لیبارٹری تعمیر کر رہا ہے جس پر امریکہ کا جی بی یو۔ 57 بم اثر نہیں کر سکتا۔

ملبہ کی مقدار سے تنصیب کی گہرائی کی نشاندہی ہوتی ہے

رپورٹ کے مطابق " پلینٹ لیبز پی بی سی (Planet Labs PBC) سے موصول ہونے والی سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نتانز کی ایٹمی تنصیب کے قریب پہاڑ وں میں سرنگیں کھود رہا ہے اور ماہرین کے مطابق اس عمل میں جو مٹی اور ملبہ باہر نکلا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تنصیب 80 میٹر سے 100 میٹر تک گہری ہو سکتی ہے جو 260سے 328 فٹ کے برابر ہے جب کہ امریکہ کا بم جی بی یو۔57 امریکی ایئر فورس کے مطابق صرف 60 میٹر یا 200 فٹ زیرِ زمین مار کر سکتا ہے۔

تہران کے جنوب میں ایران کی نتانز نیوکلئیر تنصیب کی عمارت۔ فوٹو اے پی
تہران کے جنوب میں ایران کی نتانز نیوکلئیر تنصیب کی عمارت۔ فوٹو اے پی

ماہرین کہتے ہیں کہ اس تعمیراتی منصوبے کا حجم ظاہر کرتا ہے کہ ایران اس تنصیب کو محض سینٹری فیوجز بنانے کے لیے ہی استعمال نہیں کرے گا بلکہ وہاں یورینیم بھی افزودہ کیا جائے گا۔

واشنگٹن میں قائم ’’ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن ‘‘ کی جوہری عدم پھیلاؤ پالیسی کی ڈائریکٹر کیلسی ڈیونپورٹ خبر دار کرتی ہیں کہ ایسی کسی تنصیب کی تعمیر ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ہوگی جو نئے تنازعے کے خطرات کو جنم دے گی۔

وہ کہتی ہیں،’’ یہ دیکھتے ہوئے کہ ایران بم بنانے کے کتنا قریب ہے، اس کے لیے اپنے پروگرام میں تیزی پیدا کرنا، امریکہ اور اسرائیل کی قائم کردہ سرخ لکیر عبور کیے بغیر ممکن نہیں چنانچہ کسی بھی عمل میں مزید اضافہ تنازعے کا خطرہ بڑھا دے گا۔

کیا ایران نیوکلئیر بم بنانے کے قریب ہے؟

نتانز کے قریب اس تنصیب کی تعمیر، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران ایٹمی معاہدے سے امریکہ کو الگ کرنے کے پانچ سال بعد شروع ہوئی ہے۔

اس معاہدے کے ختم ہونے کے بعد سے ایران کا کہنا تھا کہ وہ یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کر رہا ہے مگر معائنہ کاروں نے انکشاف کیا کہ ایران نے 83.7 فی صد خالص یورینیم تیار کر لیا ہے اور ایک بم بنانے کے لیے ضروری سطح 90 سے صرف ایک قدم دور ہے۔

فروری میں بین الاقوامی انسپکٹرز نے اندازہ ظاہر کیا تھا کہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم کے ذخائر، اوباما دور کے معاہدے کے وقت سے دس گنا بڑھ گئے ہیں۔ اور ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے، آئی اے ای اے کے سربراہ کے الفاظ میں یہ ذخیرہ کئی نیوکلئیر بم بنانے کے لیے کافی ہے۔

صدر بائیڈن اور اسرائیلی وزیرِ اعظم کہہ چکے ہیں کہ ایران کو نیوکلئیر بم بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے لیے ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے،’’ ہم یقین رکھتے ہیں کہ سفارت کاری اس مقصد کے حصول کے لیے بہترین راستہ ہے لیکن صدر یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ کسی بھی متبادل کو امکان سے خارج نہیں کیا گیا ہے‘‘۔

ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے، ایران

اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ نیوکلئیر بم نہیں بنا رہا۔

اقوامِ متحدہ میں ایران کے مشن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے سوالات کے جواب میں کہا ہے، ’’ ایران کے پر امن جوہری پروگرام کی سرگرمیاں شفاف اور ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے، آئی اے ای اے کے حفاظتی اصولوں کے مطابق ہیں‘‘۔

نئی تنصیب کی تعمیر سے متعلق ایران کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد نتانز کے زمین کی سطح پر تعمیر شدہ سینٹری فیوجز کی تعمیر کے اس سینٹر کا متبادل تیار کرنا ہے، جس میں جولائی 2020 میں دھماکہ ہوا اور آگ لگی تھی۔

تہران اس واقعے کے لیے اسرائیل کو ذمے دار ٹھہراتا ہے جس پروہ طویل عرصے سے ایران کے پروگرام کو تباہ کرنے کی کوششوں کے لیے شک کا اظہارکرتا ہے۔

کیا امریکہ اب بھی بم گرانے کا ارادہ رکھتا ہے؟

امریکی عہدیداروں نے تنصیب کی تباہی یقینی بنانے کے لیے دو مسلسل بم گرانے پر غور کیا ہے لیکن اس کے باوجود نتانز کے قریب سرنگوں کی گہرائی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔

اس معاملے میں پیچیدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کے B-2 بمبار طیارے دسمبر سے گراؤنڈ کیے جا چکے ہیں۔ ایسے ایک طیارے میں آگ لگنے کے بعد اس کی ہنگامی لینڈنگ کی وجہ سے کیا گیا۔

تاہم پیر کے روز ’’ ایئر فورس گلوبل سٹرائیک کمانڈ‘‘ نے کمانڈر جنرل نے کہا ہے،‘‘ B-2بمبار طیاروں سے پابندی اٹھا لی گئی ہے اور یہ کہ اس کی نیوکلئیر بچاؤ اور دور مار حملوں کی صلاحیت پر کبھی شبہ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔

( اس خبر کا مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG