ایسے میں جب ٹرمپ انتظامیہ ابھی اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات مرتب کرنے اور عملہ تعینات کرنے میں مصروف ہے، روس اپنا دائرہٴ اختیار وسیع کرنے کے لیے پر تول رہا ہے، جس کا مقصد اُس خلا کو بھرنا ہے جہاں بیرونِ ملک امریکہ کی عدم موجودگی نظر آتی ہے۔
روسی سربراہ، ولادیمیر پیوٹن یوکرین اور شام جیسے مقامات پر اپنی پنجہ آزمائی دکھا رہے ہیں؛ اور ممکنہ اتحادیوں کو دلاسے دے رہے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ بعد میں وہ اُن کی تقویت کا باعث بنیں گے۔ یہ عالمی سطح پر اپنی موجودگی جتانے کی ایک کاوش خیال کی جا رہی ہے۔
اس ضمن میں، روس اُن ملکوں پر دھیان مرکوز کر رہا ہے جن کے امریکہ کے ساتھ غیرپختہ مراسم ہیں، وہ حکمتِ علمی کے باعث ہیں یا پھر اُن کے پاس قدرتی وسائل کی فراوانی ہے۔
اصل سوال یہ ہے آیا پیوٹن کی نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کس طرح کے ہوں گے۔ کیا دونوں مختلف قسم کی شخصیات داعش جیسے دشمن کے خلاف اتحادی بنیں گے، جو تعاون کے میدان میں نیا عہد ہوگا؟ کیا سرد جنگ کے زمانے کی بداعتمادی اور دشمنی پر قابو پایا جاسکے گا؟ اور کیا ٹرمپ کی انتخابی مہم کو بڑھاوا دینے کی روسی کوششوں کا کوئی طویل مدتی مداوا ممکن ہوگا؟
سرد جنگ کے دور میں روس کا اثر و رسوخ مثالی تھا، جو کمیونزم کے زوال اور وسیع تر سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ڈرامائی طور پر ختم ہوتا گیا۔ لیکن، پیوٹن کے دور میں، شمالی سمندر سے انٹارکٹیکا تک اسے پھر سے بحال کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
ایک تازہ ترین کوشش کرتے ہوئے، روس نے افغانستان میں مشہور جنگی جنون والے ملکی کردار کو بدل کر اپنے آپ کو امن قائم کرنے والا ظاہر کر رہا ہے۔
بدھ کے روز، روس نے ماسکو میں دو روزہ امن مذاکرات کے دوسرے دور کا انعقاد کیا، جس میں افغانستان، پاکستان، ایران، بھارت اور چین کو مدعو کیا گیا۔ اجلاس میں امریکہ کی عدم شرکت نمایاں تھی، باوجود یہ کہ وہ داعش کے دہشت گردوں کے انسداد کی جدوجہد کر رہا ہے اور افغانستان کو استحکام کی راہ پر ڈالنے کی ٹھوس تدابیر پر گامزن ہے۔
خطے میں افغانستان پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ شام میں کارروائی کے بعد، روس چاہتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر زیادہ متحرک کردار ادا کرے۔