رسائی کے لنکس

  کیا ایران غزہ جنگ کے دوران یورینیم افزودگی میں اضافہ کررہا ہے?


 8 فروری 2023 کو تہران، ایران میں ملک کی جوہری کامیابیوں کی نمائش میں ایران کے مقامی طور پر بنائے گئے سینٹری فیوجز رکھے گئے ہیں۔
8 فروری 2023 کو تہران، ایران میں ملک کی جوہری کامیابیوں کی نمائش میں ایران کے مقامی طور پر بنائے گئے سینٹری فیوجز رکھے گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے کہا ہے کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر پیش رفت جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ ادارے کو اپنے پروگرام کی مانیٹرنگ سے مسلسل روک رہا ہے۔

جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کی دو خفیہ رپورٹوں میں سے ایک کے مطابق, جنہیں رائٹرز نے دیکھا ہے ، ایران کے پاس اس وقت 60 فیصد تک افزودہ یورینیم موجود ہے جو جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے۔

جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ 2015 کے معاہدے کی حد سے 22 گنا زیادہ ہے۔

رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ایران کا یہ ذخیرہ مسلسل بڑھ رہا ہے اگرچہ ایران مسلسل اس بات سے انکار کر رہا ہے کہ وہ کوئی جوہری بم بنانا چاہتا ہے۔ ا س کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے۔

ایران کو جوہری پروگرام سے باز رکھنے کے امکانات

ایران کو جوہری پروگرام سے باز رکھنے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس اب بہت کم طریقے بچے ہیں ۔

ایران کو اس کے جوہری پروگرام کو روکنے میں امریکی حکومت کی ناکامی کے بارے میں چار سفارت کاروں نے ایک مایوس کن نقشہ پیش کیا ہے ۔ ان سفارت کاروں نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے اپنے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بات کی ہے۔

ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں کے ساتھ اس کی بات چیت کی بحالی کے امکانات اس کے بعد سے ختم ہو چکے ہیں جب سابق امریکی صدر ٹرمپ نے 2015 کے ایران کے ساتھ ہونے والےجوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

غزہ کی جنگ اور ایران کا جوہری پروگرام

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو اس وقت ایران کو اس کے جوہری پروگرام سے باز رکھنے میں کئی مشکلات در پیش ہیں ۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس وقت ایران کے خلاف کوئی مزید سخت اقدامات کرنےسے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے جہاں پہلے ہی غزہ کی جنگ کی وجہ سے غم وغصہ موجود ہے۔

واشنگٹن نے تہران کو جزوی طور پر ایک انتباہ کے طور پر خطے میں دو طیارہ بردار بحری جہاز اور مشرقی بحیرہ روم میں جنگی طیارے تعینات کیے ہیں لیکن امریکی حکام نے ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں سے دستبرداری اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتے ۔

امریکی انتخابات

ایران کو اس کے جوہری پروگرام سے روکنے کے لیے کسی بھی قسم کے اقدامات سے اس وقت ممکنہ طور پر گریز کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس وقت بائیڈن انتظامیہ کی توجہ اگلے سال کے انتخابات پر مرکوز ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو اس وقت ممکنہ طور پر بائیڈن کے مد مقابل نظر آتے ہیں، تہران کے ساتھ جوہری معاملے پر کسی بھی بات چیت کو ان کی کمزوری کے طور ر پیش کر سکتے ہیں ۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق عہدے دار رابرٹ آئین ہارن نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں سیاسی طور پر یہ بالکل ممکن نہیں ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاملے پر کوئی بات ہو سکے ۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت سیاسی بحث ایران کےساتھ مزاکرات کے بارے میں نہیں ہونے جارہی یہ ایران کےساتھ محاذ آرائی کے بارے میں ہوگی ۔

سفارت کار کیا کہتے ہیں؟

کیا ایران کے خلاف کوئی قرار داد اس وقت لانا ممکن ہے؟

مغربی طاقتوں نے ستمبر میں دھمکی دی تھی کہ وہ ایران کو اپنا جوہری پروگرام ختم کرنے کا حکم دینے کے لیے ایک ایسی قرار داد منظور کریں گی جس کی پابندی لازمی ہوگی ۔ تاہم چاروں سفارت کاروں نے کہاہے کہ اب اس قرار داد کا پیش کیا جانا ممکن نہیں کیوں اب جب کہ توجہ اسرائیل کے ساتھ حماس کے تنازع پر مرکوز ہے ایران کے ساتھ سفارتی اور جوہری تنازع کو بڑھانے سے اجتناب انتہائی ضروری ہے ۔

ایک سینیئر یورپی سفار ت کار نے کہا کہ ہم اس وقت کوئی قرار داد نہیں لاسکتے ۔ اگر ہم کوئی قرار داد منظور کرانے کی کوشش کریں گے تو اس سے یہ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کہ ایرانی مشتعل ہو کر اپنی یورینیم کی افزودگی میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اسے 90 فیصد تک پہنچا دیں۔

ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے اس وقت کیا کیا جاسکتا ہے؟

دو سفارتکاروں نے کہا کہ آنے والے مہینوں میں جو کچھ ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ آئی اے ای کے سربراہ رافیل گراسی کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی کو مستحکم کرنے کی کوششوں کی مدد کی جائے۔

ایک سفارت کار نے کہا کہ اس وقت یہ کہنا بہت قبل از وقت ہے کہ ایران ایک جوہری طاقت کا حامل ملک بن جائے گا یا آیا وہ اس کے قریب پہنچ جائے گا؟ لیکن اس وقت وہ اپنی یورینیم کی افزودگی جاری رکھے گا ۔

واشنگٹن اور اس کے فرانسیسی ، برطانوی اور جرمن اتحادی ، جو 2015 کے جوہری معاہدے میں شامل تھے ، اگلے ہفتے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں اس بارے میں بات چیت کریں گے۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG