پاکستان کی وفاقی کابینہ کی تبدیلی کے بعد پنجاب حکومت میں ممکنہ تبدیلیوں پر میڈیا میں ہونے والے تبصرے تا حال کسی حتمی انجام کو نہیں پہنچے ہیں۔ لیکن بدھ کو گورنر پنجاب چوہدری سرور کی پریس کانفرنس نے صوبے میں تبدیلی کی قیاس آرائیوں کو خاصی تقویت دے دی ہے۔
گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بدھ کو لاہور میں پریس کانفرنس کی لیکن اس کانفرنس میں بعض لوگوں کے لیے جو بڑا اعلان متوقع تھا وہ نہیں ہوا۔ اور یہ کانفرنس تبدیلی کے اعلان کی بجائے معمول کی ایک پریس کانفرنس ثابت ہوئی۔
وفاقی کابینہ میں تبدیلی کے بعد وزیرِ اعلٰی پنجاب عثمان بزدار کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گِل نے ٹوئٹ کی تھی کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ "اپنے کپتان عمران خان سے بات کر کے اور اجازت سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب یا وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا کو بدلنے کی کوئی بات زیرِ غور نہیں ہے۔ دونوں وزرائے اعلٰی کو وزیرِ اعظم کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔"
ڈاکٹر شہباز گل کو اِس ٹوئٹ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ٹوئٹ کی وضاحت کے لیے انہیں فون کیا تو جواب ملا کہ آپ صحافی ہی رہیں، تجزیہ کار نہ بنیں۔
مزید فرمایا کہ قیاس آرائیوں سے اجتناب کریں۔
عمران خان وزیرِ اعظم بننے سے قبل بھی اور اب بھی سیاسی جلسوں میں کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ عثمان بزدار کو عمران خان نے "وسیم اکرم پلس" کہا تھا۔
لیکن وفاقی کابینہ میں ردوبدل کے اگلے ہی روز خیبر پختونخوا میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ عثمان بزدار اور محمود خان سن لیں کہ وہ بیٹنگ آرڈر تبدیل کر سکتے ہیں اور "جو کام نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا۔"
ہر کوئی نتائج مانگتا ہے
لاہور میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی سرکاری رہائش گاہ پر پاکستان تحریکِ انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا پیر کو اجلاس ہوا تھا۔ اجلاس کے بعد جاری کیے گئے بیان کے مطابق تمام ارکان نے وزیرِ اعلٰی پنجاب پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔
صوبۂ پنجاب کے وزیر ہاؤسنگ محمود الرشید کہتے ہیں کہ عثمان بزدار ایک سیاسی جماعت کے منتخب وزیرِ اعلٰی ہیں، ان کی کارکردگی پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن اُنھیں وقت دیا جانا چاہیے۔
محمود الرشید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں صوبہ چلانا آسان نہیں ہے۔
"آج کے دور میں وزارتِ اعلٰی کی ذمہ داریاں اور بوجھ اُٹھانا بہت مشکل کام ہے۔ معیشت کی جو حالت ہے، باقی چیزیں ہیں اور میڈیا بہت متحرک ہے۔ ہر آدمی ڈیلیوری مانگتا ہے۔"
کیا چوہدری نثار وزیرِ اعلٰی پنجاب ہو سکتے ہیں؟
وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ کی تبدیلی کی گرد ابھی بیٹھی نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر چوہدری نثار کے بطور رکن پنجاب اسمبلی حلف اُٹھانے اور مستقبل میں وزیرِ اعلٰی پنجاب بننے کی باتیں گردش کرنے لگی ہیں۔
اِسے محض اتفاق سمجھیئے یا حکمتِ عملی کہ پیر کو ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صوبائی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کی زیرِ صدارت لاہور میں منعقد ہوا۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما ملک احمد خان نے کہا کہ چوہدری نثار حلف اُٹھاتے ہیں یا نہیں، یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہو گا۔
انھوں نے واضح کیا کہ "چوہدری نثار صاحب کا قطعی طور پر مسلم لیگ (ن) سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ہم اِن ہاوس تبدیلی کے حق میں نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن کا اصولی فیصلہ ہے کہ ایسا نہ ہو۔"
'جوشِِ خطابت میں سب ممکن'
تجزیہ کار اور سینئر صحافی احمد ولید سمجھتے ہیں کہ عمران خان کام نہ کرنے کی وارننگ تو ہر کسی کو دے رہے ہیں لیکن عثمان بزدار کو وزیرِ اعلٰی لگا دیا ہے اور ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احمد ولید کا کہنا تھا کہ عمران خان سے کچھ بعید نہیں اور وہ جوشِ خطابت میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی دن وہ جوش میں آ کر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلٰی کو کارکردگی نہ دکھانے کے باعث ہٹا دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ "عمران خان ہر دو ہفتے بعد لاہور میں وزرا سے خطاب کرتے ہیں۔ وزیرِ اعلٰی ہاؤس میں کچھ بندے انہوں نے لگائے ہوئے ہیں جو واٹس ایپ پر عمران خان کو باخبر رکھتے ہیں۔"
اسٹیبلشمنٹ کی مرضی!
احمد ولید کا خیال ہے کہ اگر عثمان بزدار کو تبدیل کیا جاتا ہے تو نئے وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب پی ٹی آئی کے لیے امتحان ہو گا۔
ان کے بقول چوہدری پرویز الٰہی کسی بھی مضبوط وزیرِ اعلٰی کو پسند نہیں کریں گے۔ اب بھی ارکانِ اسمبلی اپنے کام اُنہیں کہتے ہیں اور وہ عثمان بزدار کو ہدایت دیتے ہیں جس پر کام ہو جاتے ہیں۔
"عثمان بزدار کے بارے میں کافی شکوک و شبہات ہیں۔ لیکن چوہدری نثار کے وزیرِ اعلٰی بننے کی افواہیں بڑی تیزی سے گردش کر رہی ہیں اور ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بھی بہت مضبوط ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی ہے کہ پنجاب میں بھی تبدیلی لائی جائے کیونکہ اسلام آباد میں اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو بتایا کہ لوگ مہنگائی سے تنگ آ چکے ہیں۔"
کیا پرویز الٰہی خود بھی وزارتِ اعلیٰ کے اُمیدوار ہیں؟
پنجاب کے سابق نگران وزیرِ اعلٰی ڈاکٹر حسن عسکری رضوی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ عثمان بزدار متحرک وزیرِ اعلٰی نہیں ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے پاس اِس وقت کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو صوبائی سطح پر سیاسی معاملات کا ادراک رکھتا ہو۔ زیادہ تر لوگ ضلعی سطح کی سیاسی سمجھ بوجھ والے لوگ ہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری کی رائے میں چوہدری نثار سے متعلق خبریں تو گردش میں ہیں لیکن پی ٹی آئی یہ نہیں چاہے گی کہ نواز شریف کے قریبی ساتھی کو وزیرِ اعلٰی لگایا جائے۔
اُن کے مطابق اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو پنجاب کا اگلا وزیرِ اعلیٰ تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) سے ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی مضبوط امیدوار ہوں گے۔
ڈاکٹر رضوی کے بقول، "عثمان بزدار کا انتخاب ایک پہیلی ہی رہے گی کیونکہ ان کا انتخاب عمران خان صاحب کا ذاتی فیصلہ تھا۔ اِ ن کا کوئی سیاسی کیریئر پی ٹی آئی کے اندر نہیں ہے۔ الیکشن سے تین ماہ پہلے اِنہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور بہت کم لوگ اِن کو جانتے تھے۔ اب تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ اُن میں ایسی کون سی خصوصیات تھیں کہ عمران خان نے قرعہ ان کے نام نکالا۔"
مبصرین کے مطابق پنجاب کی سیاست میں اگلے چند ماہ اہم ہیں۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بھی پنجاب میں پی ٹی آئی کے اندر اپنا ایک مضبوط دھڑا رکھتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وفاق کے بعد پنجاب میں جلدی یا تاخیر سے تبدیلی تو آئے گی ہی، لیکن دیکھنا یہ کہ اس کا نشانہ کون کون بنے گا۔