رسائی کے لنکس

وفاقی حکومت میں تبدیلیوں کے بعد کیا اب پنجاب کی باری ہے؟


Punjab Assembly
Punjab Assembly

وفاقی وزیرِ خزانہ اسد عمر کے استعفے اور وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کے بعد پنجاب حکومت میں بھی تبدیلیوں کی قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی ہیں۔

بعض حلقوں کا الزام ہے کہ پنجاب میں انتظامی مسائل کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کا عدم تعاون، پولیس حکام کی بار بار تبدیلی، ترقیاتی کاموں کی بندش اور صوبائی حکومت کے معاملات میں وزیرِ اعظم کی براہ راست مداخلت کے باعث 10 کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے میں مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔

'پنجاب میں تبدیلی ممکن ہے'

پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے نو ماہ ہونے کو ہیں۔ لیکن سیاسی مبصرین کے نزدیک حکومت اس عرصے کے دوران کوئی ایسی قابلِ ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکی جس سے عوام کو یہ تاثر ملے کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت سے بہتر ہے۔

سابق نگراں وزیرِ اعلی پنجاب اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کے بقول پنجاب میں تبدیلی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن ان کے بقول تاحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ تبدیلی کس نوعیت کی ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عسکری کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار کو عمران خان کی حمایت حاصل رہی ہے اور انہیں ہٹانے کا فیصلہ بھی وزیرِ اعظم کا ہی ہو گا۔

​​پنجاب کے معاملات کون چلا رہا ہے؟

عمران خان نے جب عثمان بزدار کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب نامزد کیا تھا تو یہ کہا تھا کہ وہ 'وسیم اکرم پلس' ثابت ہوں گے۔ لیکن سیاسی مخالفین کہتے ہیں کہ وزیرِ اعلیٰ کی نو ماہ کی کارکردگی ان دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک احمد خان کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت وزیرِ اعظم ہاؤس سے چلائی جا رہی ہے اور صوبے میں وزیر اعظم کے دو نمائندے وائسرائے کی طرح پنجاب کے معاملات کنٹرول کر رہے ہیں۔

حال ہی میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب بزدار کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری محکمے کی انسپیکشن کر سکتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اس اقدام پر پنجاب کابینہ میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

دوسری جانب اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی، گورنر پنجاب چوہدری سرور اور پنجاب حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والے تحریکِ انصاف کے رہنما جہانگیر ترین پر پنجاب کے انتظامی معاملات میں مداخلت کے الزامات بھی زبان زدِ عام ہیں۔

ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ جب قیادت کا فقدان ہو تو طاقت کے مختلف مراکز جنم لے لیتے ہیں اور پنجاب میں بھی اس وقت یہی صورتِ حال ہے۔

بزدار سرکار کو درپیش بڑے چیلنج

بدعنوانی کے الزامات کے باوجود پنجاب میں شہباز شریف کے 10 سالہ دورِ اقتدار میں انفراسٹرکچر کی ترقی کو عام طور پر سراہا جاتا ہے اور ان کی شہرت غیر معمولی طور پر ایک فعال وزیرِ اعلیٰ کی تھی۔

ایسے میں یہ سوال اٹھتے رہے ہیں کہ کیا تحریکِ انصاف کی حکومت وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت میں شہباز شریف کے دورِ حکومت کا مقابلہ کر سکے گی؟

ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق پنجاب اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے پاس کوئی ایسا رکن موجود نہیں جس کا پنجاب کی سطح پر کوئی سیاسی قد کاٹھ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے لیے پنجاب جیسے صوبے پر اپنی گرفت قائم رکھنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

بیورو کریسی خوف اور غیر یقینی کا شکار

پنجاب کے انتظامی معاملات موثر نہ ہونے کی ایک وجہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارروائیاں بھی ہیں۔

نیب کے ہاتھوں سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے قابلِ اعتماد بیوروکریٹ احد چیمہ، سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے پرسنل سیکرٹری فواد حسن فواد اور کئی دیگر اعلیٰ سرکاری افسران کی گرفتاری کے باعث انتظامی مشینری ضرورت سے زیادہ محتاط ہو گئی ہے جس کا براہِ راست اثر پنجاب حکومت کی مجموعی کارکردگی پر پڑ رہا ہے۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قربت

مرکز کی طرح پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قربت بڑھ رہی ہے جو مسلم لیگ (ق) کے چند ووٹوں سے قائم تحریکِ انصاف کی اتحادی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

یوں تو مسلم لیگ (ن) پنجاب میں کسی بھی ان ہاؤس تبدیلی کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی لیکن پنجاب کی سطح پر اپوزیشن کی دونوں جماعتوں نے حکومتی جماعت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے مشترکہ کور کمیٹی قائم کر دی ہے۔

دونوں جماعتوں نے حکومت کے غیر پارلیمانی اقدامات کے خلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان بھی کر رکھا ہے جس سے لگتا ہے کہ آنے والے دن پنجاب حکومت کے لیے مزید مشکل ہوں گے۔

'وزیرِ اعلٰی، وزیرِ اعلٰی ہی ہوتا ہے'

صوبائی حکومت میں تبدیلیوں کے تمام مطالبات اور قیاس آرائیوں کے باوجود وزیرِ اعلٰی پنجاب عثمان بزدار صوبے میں سب اچھا کا پرچار کرتے ہیں۔

حال ہی میں صوبے کے انتظامی معاملات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ معاملات ان کے کنٹرول میں ہیں۔

عثمان بزدار نے کہا تھا عمران خان کے وژن کے مطابق پنجاب میں کام ہو رہا ہے لیکن ان کے بقول "وزیرِ اعلیٰ، وزیرِ اعلیٰ ہی ہوتا ہے۔"

لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کب تک وزیرِ اعلیٰ رہتا ہے۔

XS
SM
MD
LG