تجزیہ کاروں نے ہفتے کے روز امریکی وفد اور طالبان رہنماؤں کے وفود کے درمیان دوحہ میں ہونے والی ملاقات کو ایک ''مثبت پیش رفت" قرار دیا ہے، جس میں سیکیورٹی، دہشت گردی اور انسانی حقوق سمیت دیگر امور پر بات چیت ہوئی۔
نیو یارک سٹی یونیورسٹی سے وابستہ جہانگیر خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی کہتے ہیں کہ بات چیت پیشہ ورانہ تھی اور طالبان کہتے ہیں کہ بات چیت اچھی رہی۔
یعنی، بقول ان کے، بیان میں کافی حد تک مماثلت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بات چیت مثبت ماحول میں ہوئی۔
جہانگیر خٹک کے بقول، ''ملاقات میں طالبان نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے، جس کے لئے امریکہ فی الحال تیار نہیں ہے''۔
اسکے علاوہ طالبان نے اپنی وہ رقوم جو امریکہ میں منجمد ہیں، انہیں واگزار کرنے کے لئے بھی کہا، جس کا فوری طور ہر کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا۔
تاہم، جہانگیر خٹک نے کہا کہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ بات چیت کے دوران امریکہ نے طالبان کی جانب سے امداد کے مطالبے پر کہا کہ یقیناً مدد کی جائے گی۔ لیکن یہ مدد براہ راست افغانساتن کے لوگوں کے لیے ہوگی۔
اسکا مطلب یہ ہوا کہ جیسا کہ امریکہ کی شروع سے پالیسی رہی ہے کہ مدد تو کی جائے گی، مگر طالبان حکومت کے ذریعے مدد نہیں کی جائے گی، بلکہ غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے سے مدد کی جائے گی۔ امریکہ پہلے ہی براہ راست افغانوں کی مدد کا اعلان کر چکا ہے۔
اس بات چیت کے دوران، امریکہ نے سیکیورٹی، دہشت گردی، انسانی حقوق، خاص طور سے خواتین کے حقوق اور وہاں پھنسے ہوئے امریکی شہریوں اور امریکہ کے لئے کام کرنے والے افغان اور دوسرے لوگوں کو محفوظ راہداری دینے کے مطالبات کئے۔
اہل کاروں کے مطابق، امریکہ نے واضح کیا کہ طالبان کو انکی کارروائیوں کی بنیاد پر جانچا جائے گا اور ان ہی بنیادوں پر آئندہ فیصلے کئے جائیں گے۔
جہانگیر خٹک نے کہا کہ افغانستان میں داعیش اور اسکی بڑھتی ہوئی جارحیت روس، چین، پاکستان اور ایران سمیت خطے کے دوسرے ملکوں اور پوری دنیا کے لئے بڑھتی ہوئی تشویش کا سبب ہے۔ امریکہ نے داعش کے خلاف جنگ میں طالبان کو مدد کی پیشکش بھی کی، جسے طالبان نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں کہا کہ پہلے تو طالبان داعش کے بارے میں بات نہیں کرتے تھے لیکن اب کر رہے ہیں اور انکا کہنا کہ داعش انکے لئے خطرہ تو نہیں البتہ درد سر بن گئی ہے۔ اور قندوز میں شیعہ مسجد پر حملے کے بعد خطے میں داعش کے حوالے سے تشویش بڑھ گئی ہے۔ لیکن، طالبان انکے خلاف جنگ میں مدد لینے کو تیار نہیں ہیں، جو سبھی کے لئے پریشانی کا سبب ہے۔
تاہم انہوں نے کہا بعض وقت حالات کے سبب وہ کچھ ظہور پذیر ہوتا ہے جس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی، جیسا 2015ء میں اسی قندوز میں ہوا جہاں داعش کی طاقت بہت بڑھ گئی تھی اور داعش کو وہاں سے نکالنے کے لئے ایک بہت بڑا آپریشن کیا گیا تھا جس میں اسوقت کی افغانستان کی سرکاری فوج، امریکی افواج اور طالبان ایک ساتھ داعش کے خلاف لڑے تھے اور اسے قندوز سے نکالا گیا تھا۔
اور انہوں نے کہا کہ آج بھی یہ ناممکن نہیں ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ امریکہ اور چین کے درمیان رقابت کے باوجود داعش کے خطرے کو ختم کرنے کے امریکہ اور چین کے اور خطے کے دوسرے ملکوں کے درمیان تعاون ہو اور طالبان بھی اس تعاون میں شامل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم مجموعی طور پر اس بات چیت کو دیکھیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ دونوں جانب سے اختلافات کے باوجود اس بات پر اتفاق ہے کہ طالبان کسی حد تک تو تعاون کے لئے تیار ہیں؛ لیکن ایسا لگتا ہے کہ طالبان کا جو سخت موقف یا رویہ ہے وہ اس کے باوجود اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں کہ افغانستان کے اندر انسانی صورت حال بہت خراب ہے۔ اس کے سبب طالبان پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور اگر یہی صورت حال رہی تو دباؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔
جہانگیر خٹک کا کہنا تھا کہ فریقین رابطوں کے چینلز کھلے رکھنے اور ضرورت پڑنے پر آئندہ بھی ایسی ملاقاتوں کے لئے متفق تھے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ تصادم کی صورت حال نہیں بلکہ افہام و تفہیم کی صورت حال رہے گی۔