افغانستان میں ہرچند کہ طالبان نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ لیکن مستقبل میں اب بھی کئی چیلنجز ان کے منتظر ہیں۔ ان میں ایک بڑا چیلنج ماہرین کے بقول داعیش یاIS-K کی طرف سے ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ ماضی میں 9/11 سے قبل طالبان حکومت کے لئے شمالی اتحاد ایک بڑا چیلنج تھا، جو طالبان مخالف عناصر کا اتحاد تھا۔ جس پر غیر پشتونوں کا غلبہ تھا اور جس کی قیادت افغان کمانڈر احمد شاہ مسعود کر رہے تھے۔ اور اس اتحاد نے طالبان کو پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل نہیں کرنے دیا۔
تاہم بعد میں احمد شاہ مسعود کو ایک بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا۔ لیکن اس بار طالبان نے ابتدا ہی میں سابقہ شمالی اتحاد کے مضبوط گڑھ پنج شیر پر قبضہ کر لیا۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب طالبان کسی جانب سے کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بار انہیں ایک اور خطرناک دشمن داعش خراسان چیپٹر کا سامنا ہے۔ اور یہ داعش اس وقت سے افغان طالبان کے لئے ایک خطرہ بنی ہوئی ہے جب سے اس کے جنگجو اور قیادت 2015 میں افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار منتقل ہوئی۔ ماہرین کے بقول اس وقت کی افغان حکومتوں نے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور گروپ طاقتور ہوتا چلا گیا۔
اور اب جب کہ طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور وہ حکومت نہیں رہی ہے جو داعش کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی تھی۔تو افغان امور اور سیکیورٹی کے امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ داعش خراسان اب طالبان کے لئے اتنا بڑا خطرہ نہیں بن سکتی جتنا بڑا خطرہ پہلے تھی، بشرطیکہ بیرونی طاقتیں افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے IS-K یا داعش کی پشت پناہی نہ کریں۔
جنرل امجد شعیب سیکیورٹی کے امور کے ماہر ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ داعش کے طالبان کے لئے کوئی بڑا خطرہ بن پائے گی۔ لیکن بعض طاقتیں یہ کوشش ضرور کر سکتی ہیں کہ ان کے ذریعے یا اپنی دوسری پراکسیز کو ان کے ساتھ شامل کر کےافغانستان میں ایسا ماحول قائم کروادیا جائے کہ چین وہاں اپنے قدم نہ جمانے پائے اور افغانستان کے ذریعے اپنے سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبوں کو آگے نہ بڑھا سکے۔
اس سوال کے جواب میں کہ دوسرے دہشت گروپ جو افغانستان میں سرگرم عمل ہیں، ان کے ساتھ طالبان ممکنہ طور پر کیا کر سکتے ہیں، جنرل امجد شعیب نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان ان میں کسی بھی گروپ کو افغانستان سے کسی کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔ وہ ان سے کہیں گے کہ اپنے ملکوں کو واپس جائیں، یا کسی تیسرے ملک چلے جائیں۔ لیکن اگر افغانستان میں رہنا ہے تو پرامن طور سے رہنا ہو گا۔
انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ TTP کے لئے طالبان کے دل میں نرم گوشہ ہے۔ اور انہوں نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو افغانستان سے پاکستان کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دیں گے، لیکن آپ ان سے بات کریں اور اگر وہ آپ کی بات مانتے ہیں اور آپ انہیں معافی دیتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ یہ آسانی سے چلے جائیں گے۔ ہمارا کام بھی آسان ہو جائے گا۔ اور اس سلسلے میں پاکستان اور TTP کے درمیان بقول ان کے پیغام رسانی شروع بھی ہو چکی ہے۔
طاہر خان ایک پاکستانی صحافی اور افغان امور کے ماہر ہیں اور طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے دو بار افغانستان کے دورے کر چکے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ داعش کے بارے میں وہ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ طالبان کے لئے کوئی بڑا خطرہ بن سکتے ہیں، لیکن خطرہ بحرحال ہیں۔ اور یہ خطرہ آنے والے دنوں میں طالبان کے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ اور طالبان کو اس سے نمبٹنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک بڑا خطرہ یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہےکہ دہشت گردوں کے مخصوص رویے کے مطابق اگر کسی ملک میں خلفشار ہے تو وہ ان کی بہترین پناہ گاہ ہے۔ دنیا کے دوسرے حصوں سے دہشت گرد آ کر افغنستان میں داعش کے ساتھ شامل ہونا شروع ہو جائیں۔ لیکن پھر بھی وہ طالبان کے لئے کوئی بڑا چیلنج نہیں بنیں گے۔ کیوںکہ TTP سمیت افغانستان کے اندر موجود دوسرے گروپ طالبان کے اتحادی ہیں۔ اور TTP جیسے مضبوط گروپ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔لیکن انہوں نے کہا کہ اگر داعش کو باہر سے مخصوص مقاصد کے لئے امداد ملنی شروع ہو گئی تو طالبان کے لئے مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔